حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ – احیائے دین کے مظہر

اسلام کی تاریخ میں وہ مبارک ہستیاں جنہوں نے اپنے دور کی روحانی وفکری ضروریات کو پورا کرتے ہوئے امت کو ایک نئی زندگی عطا کی، ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ ایسی ہی ایک عظیم المرتبت شخصیت حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد المصلح الموعود ؓکی ہے، جنہیں اللہ تعالیٰ نے نہ صرف اپنے والد ماجد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کا عملی مظہر بنایا، بلکہ آپ کی شخصیت ایک ایسی روشن مینارتھی جو آئندہ صدیوں تک امت کی رہنمائی کا باعث بنے گی۔

آپ نہ صرف ایک عظیم مُدبّر اور منتظم تھے، بلکہ ایک ماہر مفسر، مصلح، مبلغ اور داعی الی اللہ بھی تھے۔ آپ نے نہایت دوراندیشی کے ساتھ جماعت احمدیہ کو ایک ایسے عالمی سلسلہ میں تبدیل کیا، جو نہ صرف تبلیغ اسلام تک محدود رہا ، بلکہ علم، ادب، معیشت اور سماجی فلاح وبہبود میں بھی اپنی مثال آپ بن گیا ۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں ظاہر ہونے والے کارنامے اس امر کی گواہی دیتےہیں کہ آپ کا Vision صرف وقتی حالات تک محدود نہیں تھا، بلکہ آپ نے امت کی اصلاح کے لیےمسلمانوں کو ایک ایسا ہمہ گیر نظام متعارف کروایا جو آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ بن گیا۔ تحریک جدید اس کی سب سے عمدہ مثال ہے۔ یہ تحریک نہ صرف مالی قربانی پر مبنی تھی بلکہ اس نے جماعت کے اندر خدمتِ دین کا جذبہ بیدار کیا، جس کےنتائج و اثرات آج تک جاری وساری ہیں۔

آپ کے اسلوبِ رہنمائی میں ایک خاص روحانی حکمت اور اندازتھا۔ جب دنیا سیاسی اور فکری افراتفری کا شکار تھی، آپ نے اپنے خطبات اور تحریروں اور تقریروں کے ذریعے اسلام کی حقیقی تعلیمات کو ایک ایسے انداز میں پیش کیا جو انقلاب انگیز ثابت ہوئیں۔ آپ کا تفسیری شاہکار ’’ تفسیر کبیر‘‘نہ صرف قرآنی علوم کا خزانہ ہے بلکہ ایک فکری انقلاب کی بنیاد بھی ہے۔ اگر آپ کے جوشِ تبلیغ پر نظر ڈالیں تو اس کا  یہ عالم تھا کہ آپ نے فرمایا۔

’’ اصل چیز دنیا میں اسلامستان کا قیام ہے۔ہم نے پھر سارے مسلمانوں کو ایک ہاتھ پر اکٹھا کرنا ہے۔ ہم نے پھر اسلام کا جھنڈا دنیا کے تمام ممالک میں لہرانا ہے۔ ہم نے پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام عزت اور آبرو کے ساتھ دنیا کے کونے کونے میں پہنچانا ہے۔ ہم نے اسلام کو اُس کی پرانی شوکت پر پھر قائم کرنا ہے۔ ہم نے خدا تعالیٰ کی حکومت دنیا میں قائم کرنی ہے۔ ہم نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت دنیا میں قائم کرنی ہے۔ ہم نے عدل اور انصاف کو دنیا میں قائم کرنا ہے اور ہم نے عدل وانصاف پر مبنی پاکستان کو اسلامک یونین کی پہلی سیڑھی بنانا ہے۔ یہی اسلامستان ہے جو دنیا میں حقیقی امن قائم کرے گا‘‘۔

(تقریرجلسہ سالانہ28دسمبر1947۔انوارالعلوم جلد19صفحہ387-388)

نیز اپنے ایک شعر میں اس کا اظہار اسطرح فرمایا کہ

محمود کر کے چھوڑیں گے ہم حق کو آشکار

روئے زمیں کو خواہ ہلانا پڑے ہمیں

آج جب ہم حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے کارناموں کو دیکھتے ہیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ آپ کی ذات بابرکت کسی ایک دور یا کسی خاص خطے تک محدود نہیں تھی۔ آپ کے دورِ خلافت میں کیے گئے کارہائے نمایاں اور متعارف کروائے گئے منصوبے آج بھی انسانیت کی رہنمائی کر رہے ہیں اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔انشاءاللہ۔

رسالہ مشکوٰة کے زیر نظر شمارے میں ہم حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی زندگی اور کارناموں کے مختلف پہلوؤں کو منفرد زاویوں سے پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، تاکہ قارئین آپ ؓکی زندگی کی گہرائیوں کو مزید بہتر انداز میں سمجھ سکیں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے آپ کی پیش کردہ تعلیمات اور مشن کو آگے بڑھانے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

(سلیق احمد نائک)

Leave a Reply

تازہ ترین

متعلقہ پوسٹس

حیا بھی ایمان کا ایک حصہ ہے

دنیا تیزی سے بدل چکی ہے۔ اب خیالات، نظریات، رجحانات اور عقائد کی تشکیل کا سب سے تیز ذریعہ قلم اور کتاب نہیں، بلکہ موبائل

نظام خلافت: انسانیت کی بقا

آج کا دَور فتنوں کا دَور ہے۔ سیاسی انتشار، اخلاقی زوال، مذہبی منافرت اور روحانی بے راہ روی نے دنیا کو ایک ایسے موڑ پر

حسنِ اخلاق

اخلاق، انسانی شخصیت کا وہ پہلو ہے جو اس کے باطن کی آئینہ داری کرتا ہے۔ یہ محض ظاہری آداب کا نام نہیں، بلکہ دل