دنیا
کے مختلف فکری دھاروں میں یہ سوال اکثر اٹھایا جاتا ہے کہ آیا سائنس اور مذہب،
بالخصوص اسلام، ایک دوسرے کے مخالف ہیں یا ہم آہنگ؟ مغرب میں نشاۃ ثانیہ کے بعد پیدا
ہونے والی بعض سائنسی تحریکوں نے دین کو فرسودہ اور غیر علمی قرار دے کر اس سے
بغاوت کی، اور یوں مذہب و سائنس کے درمیان ایک خلیج قائم ہوگئی۔
لیکن اگر ہم اسلام کی تعلیمات
اور تاریخ کا غیر جانب دارانہ جائزہ لیں، تو یہ حقیقت آشکار ہو جاتی ہے کہ اسلام
اور سائنس نہ صرف ہم آہنگ ہیں، بلکہ ایک دوسرے کے بہترین معاون و محرک بھی ہیں۔
اسلام
دنیا کا وہ واحد مذہب ہے جس کی پہلی وحی کا آغاز ہی علم کے حصول کے حکم سے ہوا:اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ
قرآن
مجید نے نہ صرف علم کے حصول کو فرض قرار دیا بلکہ کائنات میں غور و فکر کو عبادت
کا درجہ دیا۔ قرآن کی سینکڑوں آیات انسان کو آسمانوں، زمین، سمندر، بارش، ہوا،
نباتات، حیوانات اور خود انسانی جسم میں تدبر کی دعوت دیتی ہیں۔
تاریخی
لحاظ سے بھی جب یورپ جہالت کی تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا، اُس وقت مسلمان سائنس دان
دنیا کو روشنی، تحقیق، اور منطق کی راہوں پر گامزن کر رہے تھے۔ ابن الہیثم، الرازی،
ابن سینا، البیرونی، ابن خلدون اور دیگر عظیم دماغ سائنس کے مختلف میدانوں میں سنگ
میل ثابت ہوئے۔ ان کا دین سے تعلق مضبوط تھا، اور ان کی سائنسی کاوشیں درحقیقت
اسلامی تعلیمات کا ہی عملی مظہر تھیں۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ
فرماتے ہیں:
’’پس
قرآن تو سائنس کی طرف بار بار توجہ دلاتا ہے۔ چہ جائیکہ اس سے نفرت دلائے۔ قرآن نے
یہ نہیں کہا کہ سائنس نہ پڑھو، کافرہو جائو گے کیونکہ اسے اس بات کا ڈر نہیں ہے کہ
لوگ علم سیکھ جائیں گے تو میرا جادو ٹوٹ جائے گا۔ قرآن نے لوگوں کو سائنس کی تعلیم
سے روکا نہیں بلکہ فرمایا ہے: قُلِ انْظُرُوْا مَاذَا فِی السَّمٰوٰتِ
وَالْاَرْضِ۔ غور کرو، زمین اور آسمان کی پیدائش میں۔ آسمان سے مراد سماوی (علوی)
علوم اور زمین سے ارضی یعنی جی آولوجی (Geology)، بائی آلوجی (Biology)، آرکی آولوجی
(Archeology)، طبیعیات وغیرہ
علوم مراد ہیں۔ اگر خدا کے نزدیک ان علوم کے پڑھنے کا نتیجہ ، مذہب سے نفرت ہوتا
تو قرآن کہتا ان علوم کو کبھی نہ پڑھنا۔ مگر اس کے بر خلاف وہ تو کہتا ہے، ضرور
غور کرو، ان علوم کو پڑھو اور اچھی طرح چھان بین کرو کیونکہ اسے معلوم ہے علوم میں
جتنی ترقی ہو گی، اس کی تصدیق ہو گی۔‘‘
(انوار
العلوم، جلد 9، صفحہ 501)
نیز فرمایا:
’’مذہب
اور سائنس میں مقابلہ ہی کوئی نہیں۔ کیونکہ مذہب خدا کا کلام ہے، اور سائنس خدا کا
فعل۔ اور کسی عقلمند کے قول اور فعل میں اختلاف نہیں ہو سکتا۔ ہاں اگر کوئی جھوٹا
ہو یا پاگل ہو تو اختلاف ہو گا۔ خدا کے متعلق دونوں باتیں ممکن نہیں کیونکہ خدا
ناقص العقل یا ناقص الاخلاق نہیں۔ پس خدا کے قول اور فعل میں فرق نہیں۔ اسی لئے
مذہب اور سائنس میں بھی تصادم نہیں۔‘‘
(انوار
العلوم جلد 9 صفحہ499،501)
الغرض
یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ اسلام سچے اور مفید علم کا نہ صرف داعی ہے بلکہ اس کا
محافظ بھی ہے۔ آج کے دور میں یہ پیغام نوجوان نسل تک پہنچانا ناگزیر ہو چکا ہے کہ
سائنسی ترقی اور مذہبی وابستگی نہ صرف ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہیں، بلکہ ایک دوسرے
کے معاون و مددگار بھی ہیں۔
اللہ
تعالیٰ ہمیں علمِ نافع عطا فرمائے، اور ہمیں توفیق دے کہ ہم اسلام کے اس روشن، عقلی
اور سائنسی پہلو کو دنیا کے سامنے پیش کر سکیں۔
سلیق احمد نایک