کلام الامام المہدی علیہ السلام – فروری ۲۰۲۱

حضرت امام مہدی و مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:

ہدایت اور تربیتِ حقیقی خدا کا فعل ہے

’’ہدایت اور تربیت حقیقی خدا کا فعل ہے۔ سخت پیچھا کرنا اور ایک امر پر اصرار کو حد سے گزار دینا یعنی بات بات پر بچّوں کو روکنا اور ٹوکنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ گویا ہم ہی ہدایت کے مالک ہیں۔ اور ہم اُس کو اپنی مرضی کے مطابق ایک راہ پر لے آئیں گے۔یہ ایک قسم کا شرکِ خفی ہے۔ اس سے ہماری جماعت کو پرہیز کرنا چاہیے … ہم تو اپنے بچّوں کے لئے دُعا کرتے ہیں اور سرسری طور پر قواعد اور آدابِ تعلیم کی پابندی کراتے ہیں۔بس اس سے زیادہ نہیں۔ اور پھر اپنا پُورا بھروسہ اللہ تعالیٰ پر رکھتے ہیں۔ جیسا کسی میں سعادت کا تخم ہوگا۔ وقت پر سر سبز ہو جائے گا۔‘‘

(ملفوظات جلد1 صفحہ 309ایڈیشن 1988ء)

…خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِنَّمَآاَمْوَالُکُمْ وَاَوْلَادُکُم فِتْنَۃٌ (التغابن:16) اولاد اور مال انسان کے لیے فتنہ ہوتے ہیں۔ دیکھو اگر خدا کسی کو کہے کہ تیری کُل اولاد جو مرچکی ہے زندہ کردیتا ہوں مگر پھر میرا تجھ سے کچھ تعلق نہ ہوگا تو کیا اگر وہ عقلمند ہے اپنی اولاد کی طرف جانے کا خیال بھی کریگا؟

پس انسان کی نیک بختی یہی ہے کہ خدا کو ہر ایک چیز پر مقدم رکھے۔ جو شخص اپنی اولاد کی وفات پر بُرا مناتا ہے وہ بخیل بھی ہوتا ہے کیونکہ وہ اس امانت کے دینے میں جو خدا تعالیٰ نے اس کے سُپرد کی تھی بخل کرتا ہے اور بخیل کی نسبت حدیث میں آتا ہے کہ اگر وہ جنگل کے دریاؤں کے برابر بھی عبادت کرے تو وہ جنّت میں نہیں جائے گا۔ پس ایسا شخص جو خدا سے زیادہ کسی چیز کی محبت کرتا ہے اس کی عبادت نماز، روزہ بھی کسی کام کے نہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد پنجم۔ صفحہ 602، 603 ایڈیشن 1988ء)

تازہ ترین

متعلقہ پوسٹس

امام وقت کی آواز

حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزفرماتے ہيں: لوگ عورتوں کے حقوق ادا نہيں کرتے، وارثت کے حقوق۔ اور ان کا شرعي حصہ نہيں ديتے اب بھي يہ بات سامنے آتي ہے برصغير ميں اور جگہوں پر بھي ہوگي کہ عورتوں کو ان کا شرعي حصہ نہيں ديا جاتا۔ وراثث ميں ان کو جو اُن کا حق بنتاہے نہيں ملتا۔ اور يہ بات نظام کے سامنے تب آتي ہے جب بعض عورتيں وصيت کرتي ہيں تو لکھ ديتي ہيں مجھے وراثت ميں اتني جائيداد تو ملي تھي ليکن مَيں نے اپنے بھائي کو يا بھائيوں کو دے دي اور ا س وقت ميرے پاس کچھ نہيں ہے۔ اب اگر آپ گہرائي ميں جا کر ديکھيں،جب بھي جائزہ ليا گيا تو پتہ يہي لگتا ہے کہ بھائي نے يا بھائيوں نے حصہ نہيں ديا اور اپني عزت کي خاطر يہ بيان دے د يا کہ ہم نے دے دي ہے۔ (خطبات مسرور جلد1 صفحہ نمبر115-116))

کلام الامام المھدی ؑ

حضرت اقدس مسيح موعود عليہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہيں کہ: اىک شخص اپنى منکوحہ سے مہر بخشوانا چاہتا تھا مگر وہ عورت کہتى تھى تو

انفاخ النبی ﷺ

حضرت جابر بن عبداللہؓ بيان کرتے ہيں کہ حضرت سعد بن ربيع کي بيوي اپني دونوں بيٹيوں کے ہمراہ آنحضرتؐ کے پاس آئيں اور عرض کيا کہ يا رسول اللہؐ ! يہ دونوں سعد بن ربيعؓ کي بيٹياں ہيں جو آپؐ کے ساتھ لڑتے ہوئے احد کے دن شہيد ہو گئے تھے۔ اور ان کے چچا نے ان دونوں کا مال لے ليا ہے اور ان کے ليے مال نہيں چھوڑا اور ان دونوں کا نکاح بھي نہيں ہو سکتا جب تک ان کے پاس مال نہ ہو۔ آپؐ نے فرمايا اللہ تعاليٰ اس کے بارے ميں فيصلہ فرمائے گا۔ اس پر ميراث کے احکام پر مشتمل آيت نازل ہوئي۔ پھر رسول اللہؐ نے چچا کو بلوايا اور فرمايا کہ سعد کي بيٹيوں کو سعد کے مال کا تيسرا حصہ دو اور ان دونوں کي والدہ کو آٹھواں حصہ دو اور جو بچ جائے وہ تمہارا ہے                                                                                                                            (سنن الترمذي، کتاب الفرائض، باب ما جاء في ميراث البنات)