حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرماتے ہیں:۔
پس اللہ تعالیٰ کا نور اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے پیاروں سے محبت کرنے سے آتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اپنے فضل سے وہ نور عطا فرمائے جو اس کا حقیقی نور ہے۔ جو اس کے پیاروں سے محبت کرنے سے ملتا ہے۔ جس کو حاصل کرنے کے طریقے اس زمانے کے امام نے نور محمدی سے حصہ پا کر ہمیں سکھائے۔ ہم دنیا کی لغویات میں پڑنے کی بجائے اپنے خدا سے اس نور کے ہمیشہ طلبگار رہیں اور ان لوگوں میں شمار ہوں جو ہمیشہ یہ دعا کرتے رہے ہیں کہ رَبَّنَاۤ اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا وَ اغْفِرْ لَنَا اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ (التحریم:9) کہ اے ہمارے ربّ! ہمارے لئے ہمارے نور کو مکمل کر دے اور ہمیں بخش دے ۔یقیناً تو ہر چیز پرجسے تو چاہے دائمی قدرت رکھتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اس دنیا میں بھی اس دعا کے اثرات دکھائے اور مرنے کے بعد بھی ہمارے لئے یہ نور دائمی بن کر ہمارے ساتھ رہے۔ آمین(خطبہ جمعہ 29؍ جنوری 2010ء)
قرآن کریم نے ایک جگہ اسلام کو قبول نہ کرنے والوں کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا ہے کہ وَقَالُوْا اِنْ نَّتَّبِعِ الْھُدٰی مَعَکَ نُتَخَطَّفْ مِنْ اَرْضِنَا(القصص: 58) اور وہ کہتے ہیں کہ اگرہم اس ہدایت کی جو تجھ پر اتری ہے اتباع کریں تو اپنے ملک سے اچک لئے جائیں۔ پس اسلام کی تعلیم پر اعتراض اس لئے نہیں ہے کہ ظلم اور جبر کی تعلیم ہے بلکہ قبول نہ کرنے والے اسلام کی تعلیم پر جو اعتراض کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ اگر ہم تیری تعلیم پر عمل کریں جو امن والی تعلیم ہے جو سلامتی والی تعلیم ہے تو ارد گرد کی قومیں ہمیں تباہ کر دیں۔ پس اسلام کی تعلیم تو دوستی کا ہاتھ بڑھانے کی تعلیم ہے۔ امن اور سلامتی قائم کرنے کی تعلیم ہے۔ … (خطبہ جمعہ 11؍ دسمبر 2015ء)