جے ویکھاں تیری رحمت ولّے بلّےبلّےبلّے (اداریہ – جولائی ۲۰۲۱)

سیدنا حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیز نے حال ہی میں مکرم آصف باسط صاحب کےساتھ ایک ملاقات میں فرمایاکہ ’’مجھے تو وہ شعر اپنی حالت کے لئے لکھا گیا لگتاہےکہ

جے میں ویکھاں عملاں ولے،کچھ نئیں میرے پلے

جے ویکھا ںتیری رحمت ولّے بلّے بلّے بلّے

یہ ایک ابدی صداقت ہے کہ خداکےبرگزیدہ لوگ باوجود عمل کے میدان کے شاہ سوار ہونے کے سلوک و معرفت کے اس مقام پر فائز ہوتے ہیں کہ خداکی رضاورضوان بزور بازو حاصل نہیں کی جاسکتی بلکہ دونوں جہاں کی کامیابی خداتعالیٰ کی رحمت اور فضل پر ہی موقوف سمجھتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود ؑنے نہایت ہی دلنشین پیرائے میں ایک مرتبہ اپنےکم سن بچوں کو فرمایاتھا کہ ’’نہ علم بڑی چیز ہے اورنہ دولت بلکہ خداکافضل بڑی چیز ہے۔ ‘‘

اگر خدا کی رحمت اورفضل شامل حال نہ ہو تو اعمال صالحہ کی بھی توفیق نہیں ملتی۔ ایاک نعبد وایاک نستعین میںیہی بات بیان ہوئی ہےکہ اے خداہم تیری عبادت تیری دی ہوئی توفیق سے ہی کرتے ہیں۔اگر اللہ تعالیٰ کی توفیق شامل حال نہ ہو تو انسان عبادت بجا ہی نہیں لا سکتاہے۔

اعمال میںجب تک خدا کی رضامقصود نہ ہو وہ بے کار اور بے معنی ہوجاتے ہیں ۔اعمال کا دارومدار نیت پر ہے۔ خدا کی ذات ہی ہےجواجر ثواب سے نوازتی ہے۔ اسکے ہاںصحت نیت کا ہونا بہت ضروری ہے۔ خداتعالیٰ انسان کے جسموں اوراسکی صورت کو نہیں دیکھتا ہے بلکہ اسکی نظر انسان کے قلب پر ہوتی ہے جو کہ تقویٰ کا منبع و مصدر ہے۔ اللہ تعالیٰ متقیوں کی ہی قربانیوںکو قبول فرماتاہے۔ قربانی کا گوشت اور خون اس تک نہیں پہنچتاہے۔قربانی میںبھی اصل مقصدباطنی صفائی اور تقویٰ ہے۔ لیکن اگرانسان کی نیت صاف ہے جس پر انسان کے تمام اعمال کا دارومدار ہے تو پھر اعمال بجا نہ لا کر بھی اللہ تعالیٰ اجر سے نوازتا ہے۔ حدیث میںآتاہےکہ اگر انسان صحت نیت سےشہادت کی طلب کر ے تو اللہ تعالیٰ اسکو شہادت کا مقام عطا کرتاہے اگر چہ وہ بستر مرگ پر ہی کیوں نہ وفات پائے۔اگر خدا کاایک نیک اور مقرب بندہ بیمار ہو جاتاہےاور نیک اعمال بجالانےسے قاصر رہتاہے تواللہ تعالیٰ اس بندےکی نیک نیت کے موافق اسکو اجرثواب سے نوازتا رہتاہے۔ کیونکہ اگر وہ صحتیاب رہتا تو وہ اعمال ضرور بجا لاتا۔

بسااوقات اعمال سے عجب اور ریا پیدا ہونے کا اندیشہ رہتا ہے۔ اسلئے اللہ تعالیٰ بھی قرآن کریم میں فرماتاہے کہ فلا تزکو ا انفسکم یعنی اپنے آپ کوپاکیزہ نہ خیال کرو۔ کیونکہ یہ اللہ کی ذات ہےجو پاکیزگی عطا فرماتاہے۔ لہذا خدا کی رحمت اورفضل ہی ہے جو شامل حال ہوتو انسان کی کامیابی و کامرانی کی ضمانت دی جاسکتی ہے۔

اصل مقصداور مغز اعمال کی بجا آوری نہیں ہے بلکہ خدا کے نزدیک حسن نیت مقبول ہے۔ قرآن کریم میں آتاہے کہ نماز بسااوقات نمازیوں پر لعنت ملامت کرتی ہے جب نمازی اسےسے بے خبررہتے ہیں ۔یااگر نماز ممنوعہ اوقات میںپڑھی جائے تو قابل قبول نہیں ہوتی۔

خداکےبرگزیدہ بندے خدا کی رضاجوئی کے لئے ہی اعمال بجا لاتے ہیں۔ان کو جنت کی لالچ بھی نہیں ہوتی۔ جسطرح ایک والدہ اپنےبچوںسے بغیر کسی حرص و لالچ کے محبت کرتی ہے یہی خدا کے محبوب بندوںکا حال ہوتاہے۔ حضرت مسیح موعودؑنے بھی فرمایا ہے کہ ’’ہمارابہشت ہمارا خدا ہے‘‘۔ ان تمام باتوںکاماحاصل یہی ہے کہ خدا کی رحمت پرہی انسان کی کامیابی کا زینہ ہے۔ اسلئے خداکی رحمت سے مایوس ہوناکافروںکا کام ہے۔ اسلئے ہمیںہر حال خدا کی رحمت کا طلبگار ہونا چاہئے۔

 نیاز احمدنائک

تازہ ترین

متعلقہ پوسٹس

امام وقت کی آواز

حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزفرماتے ہيں: لوگ عورتوں کے حقوق ادا نہيں کرتے، وارثت کے حقوق۔ اور ان کا شرعي حصہ نہيں ديتے اب بھي يہ بات سامنے آتي ہے برصغير ميں اور جگہوں پر بھي ہوگي کہ عورتوں کو ان کا شرعي حصہ نہيں ديا جاتا۔ وراثث ميں ان کو جو اُن کا حق بنتاہے نہيں ملتا۔ اور يہ بات نظام کے سامنے تب آتي ہے جب بعض عورتيں وصيت کرتي ہيں تو لکھ ديتي ہيں مجھے وراثت ميں اتني جائيداد تو ملي تھي ليکن مَيں نے اپنے بھائي کو يا بھائيوں کو دے دي اور ا س وقت ميرے پاس کچھ نہيں ہے۔ اب اگر آپ گہرائي ميں جا کر ديکھيں،جب بھي جائزہ ليا گيا تو پتہ يہي لگتا ہے کہ بھائي نے يا بھائيوں نے حصہ نہيں ديا اور اپني عزت کي خاطر يہ بيان دے د يا کہ ہم نے دے دي ہے۔ (خطبات مسرور جلد1 صفحہ نمبر115-116))

کلام الامام المھدی ؑ

حضرت اقدس مسيح موعود عليہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہيں کہ: اىک شخص اپنى منکوحہ سے مہر بخشوانا چاہتا تھا مگر وہ عورت کہتى تھى تو اپنى نصف نىکىاں مجھے دىدے

انفاخ النبی ﷺ

حضرت جابر بن عبداللہؓ بيان کرتے ہيں کہ حضرت سعد بن ربيع کي بيوي اپني دونوں بيٹيوں کے ہمراہ آنحضرتؐ کے پاس آئيں اور عرض کيا کہ يا رسول اللہؐ ! يہ دونوں سعد بن ربيعؓ کي بيٹياں ہيں جو آپؐ کے ساتھ لڑتے ہوئے احد کے دن شہيد ہو گئے تھے۔ اور ان کے چچا نے ان دونوں کا مال لے ليا ہے اور ان کے ليے مال نہيں چھوڑا اور ان دونوں کا نکاح بھي نہيں ہو سکتا جب تک ان کے پاس مال نہ ہو۔ آپؐ نے فرمايا اللہ تعاليٰ اس کے بارے ميں فيصلہ فرمائے گا۔ اس پر ميراث کے احکام پر مشتمل آيت نازل ہوئي۔ پھر رسول اللہؐ نے چچا کو بلوايا اور فرمايا کہ سعد کي بيٹيوں کو سعد کے مال کا تيسرا حصہ دو اور ان دونوں کي والدہ کو آٹھواں حصہ دو اور جو بچ جائے وہ تمہارا ہے                                                                                                                            (سنن الترمذي، کتاب الفرائض، باب ما جاء في ميراث البنات)