حضرت نبی کریمﷺ نے ایک مرتبہ اپنے سینہ کی طرف اشارہ کر کے فرمایاکہ تقویٰ یہاں ہے۔ اس حدیث سے عموماً یہی سمجھا جاتاہے کہ دل تقویٰ کا مرکز و مصدر ہے۔ ہمارے پیارے امام سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایاکہ اس حدیث میں آنحضر تﷺنے دراصل اس طرف اشارہ فرمایاہے کہ حقیقی تقویٰ کی جگہ آپﷺ کا قلب مطہر ہے۔ آپﷺ تقویٰ کی عمیق درعمیق راہوں سے نہ صرف واقف تھے بلکہ ان پر گامزن بھی تھے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو قابل تقلید اسوہ ٹھہرایا اور ہمیں آپ کی تقویٰ کی راہوں کواختیار کرنے کی تعلیم دی۔
بچپن سے ہی آپﷺ کاقلب اطہر اپنے مولائے حقیقی کی طرف مائل تھا۔بچپن میں ایک دفعہ بچو ںکے ساتھ کھیلتے ہوئے فرشتوں نے آپ کےسینہ کو چاک کر آپ کے دل کو صاف کیا تھا۔یہ ایک کشفی نظارہ تھاجو اسطرف اشارہ تھاکہ اللہ تعالیٰ آپ کی قلبی اور باطنی پاکیزگی کاآپ محافظ و نگران ہے۔ چنانچہ ایک دفعہ بچپن میں آپ کو مکہ کے میلوں میں جانے کی خواہش ہوئی۔ آپ نے ریوڑ کی ذمہ داری کسی اور کو سپرد کرتے ہوئے ان میلوں کا قصد کیا۔ لیکن آپ کو راستے میں نیند آگئی اور آپ سو گئے۔ اسلئے میلے میں نہیں جاسکے۔ یہ الٰہی تصرف تھاجس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کودنیاکے لہوولعب سے دور رکھا۔دعویٰ نبوت سے قبل بھی آپ مکہ میں صدیق اورامین کے لقب سے مشہورتھے۔ آپﷺ کا تزکیہ نفس اس حدتک تھاکہ آپ نے فرمایاکہ شیطان انسان میں خون کی طرح دوڑتاہے لیکن میرا شیطان مسلمان ہوگیاہے۔ آپﷺ ہمیشہ اپنے صحابہ کو شیطان کے حملوں اور تقویٰ کی باریک راہوں سے متعارف کرانے کی فکر میں رہتے تھے۔حضرت صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا سے روایت ہے وہ بیان کرتی ہیں کہ نبیﷺ اعتکاف میں تھے، تو میں رات کے وقت آپ سے ملاقات کے لیے (مسجد میں) آئی۔ میں آپﷺ سے باتیں کرتی رہی۔ پھر جب واپس ہونے کے لیے کھڑی ہوئی، تو آپﷺ بھی مجھے چھوڑ کر آنے کے لیے کھڑے ہو گئے۔ اسی وقت دو انصاری صحابہ کا وہاں سے گزر ہوا۔ جب انھوں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا، تو تیز چلنے لگے۔ آپﷺ نے ان سے فرمایا: ذرا ٹھہرو۔ یہ صفیہ بنت حیی ہیں! ان دونوں صحابہ نے عرض کیا: سبحان اللہ، یا رسول اللہ! (کیا ہم آپ کے بارے میں کوئی شبہ کر سکتے ہیں؟) آپﷺ نے فرمایا کہ شیطان انسان کے اندر خون کی طرح دوڑتا رہتا ہے۔ اس لیے مجھے ڈر لگا کہ کہیں تمھارے دلوں میں بھی کوئی بری بات نہ ڈال دے۔
حضرت نبی کریمﷺ نے زندگی کے ہر شعبہ میں بہترین قابل تقلید نمونہ پیش فرمایا۔ہر قدم اور ڈگرپر تقویٰ کوفوقیت دی۔ اپنے گھر میں اپنی ازواج مطہرات کےساتھ آپ نے تقویٰ اللہ سے کام لیتے ہوئے مساویانہ طور پر باری مقرر فرمائی تھی۔ آپﷺ نے جنگ بدر کےتمام قیدیوں کی رسیاں ڈھیلی کرنے کاارشاد فرمایاجب آپ کے چچا حضرت عباسؓ کی رسی ڈھیلی کی گئی تھی۔ اسی طرح ایک اونچے خاندان کی عورت کی چوری پر سفارش پر فرمایاکہ اگر میری بیٹی فاطمہؓ بھی چوری کرتی تو میں اسکے بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔یہ اللہ تعالیٰ کی حدود کی تنفیذ کا آپ کے دل میں جذبہ اور خوف تھا۔جنگ جس کے بارے میں مہذب اور متمدن اقوام کا مقولہ ہے کہ اس میں سب جائز ہے۔ آپ نے ہر حال تقویٰ ملحوظ خاطر رکھا۔عورتوں ،بچوں ،معصوموں ،راہبوں ،کے قتل سے منع فرمایا۔فصل و نسل کو برباد کرنے سے منع فرمایا۔آپﷺ نے ایک یہودی اور مسلمان کے درمیان تنازعہ میں یہودی کے حق میں فیصلہ دیا۔غرض آپﷺ نے تقوی اللہ کو مدنظر رکھتے ہوئے عدل وانصاف قائم فرمایا۔اسی تقوی اور عدل و انصاف کی آج دنیاکو ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو خصوصاً اور تمام دنیا کو عموماً آپﷺ کی تقویٰ کی راہوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اسی اسوہ حسنہ میں دنیا کی نجات مضمر ہے۔
(نیاز احمدنائک)