حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
وَمَالَکُمْ اَلَّاتُنْفِقُوْا فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ(الحدید:11)اور تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللّٰہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے۔ پس اپنی زندگیوں کو سنوارنے کے لئے مالی قربانیوں میں حصہ لینا انتہائی ضروری ہے بلکہ یہ بھی تنبیہ ہے کہ اللّٰہ کی راہ میں خرچ نہ کرنے والے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالتے ہیں۔ جیسے کہ فرماتا ہے۔ وَاَنْفِقُوْافِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلَاتُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَۃِ (البقرۃ۔196)۔ اور اللّٰہ کے راستے میں مال خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ پس جیسا کہ میں نے کہا یہ مالی تحریکات جو جماعت میں ہوتی ہیں، یا لازمی چندوں کی طرف جو توجہ دلائی جاتی ہے یہ سب خداتعالیٰ کے حکموں کے مطابق ہیں۔ پس ہر احمدی کو اگر وہ اپنے آپ کو حقیقت میں حضرت مسیح موعودؑ کی جماعت کی طرف منسوب کرتا ہے اور کرنا چاہتا ہے، اپنے ایمان کی حفاظت کے لئے مالی قربانیوں کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ اللّٰہ تعالیٰ کے فضل سے مخلصین کی ایک بہت بڑی جماعت اس قربانی میں حصہ لیتی ہے لیکن ابھی بھی ہر جگہ بہت زیادہ گنجائش موجود ہے۔ یہ آیت جو مَیں نے تلاوت کی ہے اس میں بھی اللّٰہ تعالیٰ نے یہی حکم فرمایا ہے کہ اگر آخرت کے عذاب سے بچنا ہے اور اللّٰہ تعالیٰ کی جنتوں کے وارث بننا ہے تو مال و جان کی قربانی کرو۔اس زمانے میں جبکہ حضرت مسیح موعودؑ نے آ کر تلوار کا جہاد ختم کر دیا تویہ مالی قربانیوں کا جہاد ہی ہے جس کو کرنے سے تم اپنے نفس کا بھی اور اپنی جانوں کا بھی جہاد کر رہے ہوتے ہو۔ یہ زمانہ جو مادیت سے پُرزمانہ ہے ہر قدم پر روپے پیسے کا لالچ کھڑا ہے۔ ہر کوئی اس فکر میں ہے کس طرح روپیہ پیسہ کمائے چاہے غلط طریقے بھی استعمال کرنے پڑیں کئے جائیں۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۶جنوری ۲۰۰۶ء)