حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’پھر ایک عام بات ہے جس کی طرف والدین کو توجہ دینی ہو گی۔وہ ہے اپنے بچوں میں اللہ تعالیٰ کا خوف پیدا کریں،اُنہیں متقی بنائیں اور یہ اُس وقت تک نہیں ہو سکتاجب تک والدین خود متقی نہ ہوں یا متقی بننے کی کوشش نہ کریں۔کیونکہ جب تک عمل نہیں کریں گے مُنہ کی باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔اگر بچہ دیکھ رہا ہے کہ میرے ماں باپ اپنے ہمسائیوں کے حقوق ادا نہیں کر رہے،اپنے بہن بھائیوں کے حقوق غصب کر رہے ہیں ،ذرا ذرا سی بات پر میاں بیوی میں ،ماں باپ میں ناچاقی اور جھگڑے شروع ہو رہے ہیں تو پھر بچوں کی تربیت اور ان میں تقوٰی پیدا کرنا بہت مُشکل ہو جائے گا۔اس لئے بچوں کی تربیت کی خاطر ہمیں بھی اپنی اصلاح کی بہت ضرورت ہے۔‘‘
(خطبات مسرور جلد1 صفحہ150)
اولاد کو دین سکھانے اور دین سے منسلک رکھنے کے لئے، ان کی دینی تربیت کی طرف کم از کم اتنی کوشش تو انسان کی ہو جتنی دنیاوی کوششیں ہوتی ہیں۔ دنیا کی طرف زیادہ کوشش ہوتی ہے اور دین کی طرف بہت کم کوشش۔ اسی وجہ سے پھر بعض لوگوں کو ابتلاء بھی آتے ہیں۔ مشکلات میں بھی پڑتے ہیں۔ پھر آپ فرماتے ہیں کہ لوگوں کو اولاد کی خواہش ہوتی ہے لیکن ہوتا یہ ہے کہ بعض اوقات صاحب جائیداد لوگوں کو یہ کہتے سنا ہے کہ کوئی اولاد ہو جاوے جو اس جائیداد کی وارث ہوگویا کہ اولاد کی خواہش صرف جائیداد کے لئے ہے تا کہ جائیداد غیروں کے ہاتھ میں نہ چلی جاوے۔ آپ فرماتے ہیںمگر وہ نہیں جانتے کہ جب مر گئے تو شرکاء کون اور اولاد کون؟ سبھی غیر بن جاتے ہیں۔ پھر فرمایا کہ اولاد کے لئے اگر خواہش ہو تو اس غرض سے ہو کہ وہ خادمِ دین ہو۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ 14 جولائی 2017ء)