حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
‘‘خدائے تعالیٰ نے احکام دین سہل و آسان کرنے کی غرض سے عوام الناس کو صاف اور سیدھا راہ بتلایا ہے اور ناحق کی دقّتوں اور پیچیدہ باتوں میں نہیں ڈالا۔ مثلاً روزہ رکھنے کے لئے یہ حکم نہیں دیا کہ تم جب تک قواعد ظنّیہ نجوم کے رو سے یہ معلوم نہ کرو کہ چاند انتیس کا ہو گا یا تیس کا۔ تب تک رؤیت کا ہرگز اعتبار نہ کرو۔ اور آنکھیں بند رکھو کیونکہ ظاہر ہے کہ خواہ نخواہ اعمال دقیقہ نجوم کو عوام الناس کے گلے کا ہار بنانا یہ ناحق کا حرج اور تکلیف مالا یطاق ہے۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ ایسے حسابوں کے لگانے میں بہت سی غلطیاں واقع ہوتی رہتی ہیں۔ سو یہ بڑی سیدھی بات (ہے) اور عوام کے مناسب حال ہے کہ وہ لوگ محتاج منجم و ہیئت دان نہ رہیں اور چاند کے معلوم کرنے میں کہ کس تاریخ نکلتا ہے اپنی رؤیت پر مدار رکھیں۔ صرف علمی طور پر اتنا سمجھ رکھیں کہ تیس کے عدد سے تجاوز نہ کریں۔ اور یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ حقیقت میں عند العقل رؤیت کو قیاسات ریاضیہ پر فوقیت ہے۔ آخر حکمائے یورپ نے بھی جب رؤیت کو زیادہ تر معتبر سمجھا تو اس نیک خیال کی وجہ سے بتائید قوت باصرہ طرح طرح کے آلات دوربینی و خوردبینی ایجاد کئے۔
(سرمہ چشم آریہ، روحانی خزائن جلد 2 صفحہ 192-193)
اکمل صاحب آف گولیکی نے بذریعہ تحریر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے دریافت کیا کہ رمضان شریف میں رات کو اٹھنے اور نماز پڑھنے کی تاکید ہے لیکن عموماً محنتی مزدور، زمیندار لوگ جو ایسے اعمال کے بجا لانے میں غفلت دکھاتے ہیں اگر اوّل شب میں ان کو گیارہ رکعت تراویح بجائے آخر شب کے پڑھا دی جائے تو کیا جائز ہو گا؟ حضرت اقدس علیہ السلام نے جواب میں فرمایا کہ ‘کچھ حرج نہیں۔ پڑھ لیں۔ ‘ (ملفوظات جلد 9 صفحہ 65۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)