غریب، یتیم اور مظلوم کے حقوق: اسلامی تعلیمات کی روشنی میں

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو نہ صرف عبادات کی تعلیم دیتا ہے بلکہ ایک منصفانہ، پُرامن اور ہمدرد معاشرہ قائم کرنے کی بھی تاکید کرتا ہے۔ قرآنِ کریم اور سنتِ نبوی ﷺ کی تعلیمات میں غریب، یتیم، مظلوم، اور کمزور طبقات کے حقوق پر بہت زور دیا گیا ہے۔ ان کی خدمت، اعانت اور فلاح کو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔ زکوٰۃ، صدقات، یتیم پروری اور سماجی انصاف جیسے اصول اسلامی فلاحی نظام کے ستون ہیں۔

غریبوں کے حقوق اور اسلام کا نظام زکوٰۃ وصدقات

اسلامی معیشت میں زکوٰۃ ایک مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ زکوٰۃ کا مقصد دولت کی گردش کو یقینی بنانا اور غریبوں کی ضروریات کو پورا کرنا ہے۔قرآنِ کریم میں ارشاد ہے:

خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا (التوبہ: 103)

اے نبی! ان کے اموال میں سے صدقہ لے لیا کرو تاکہ ان کو پاک اور بابرکت بناؤ۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

’’نماز کے بعد دوسرا حکم زکوٰۃ کا ہے جس کا یہ مطلب ہے کہ جس مال پر ایک سال گزر جائے، اس پر غریبوں اور مسکینوں کی امداد کے لیے چالیسواں حصّہ نکالا جائے۔ اگر اسلامی حکومت ہو تو اس کو وہ حصّہ دیا جائے، اگر نہ ہو تو جو انتظام ہو، اس کو دیا جائے۔‘‘

 (فرمودات مصلح موعود دربارہ فقہی مسائل، صفحہ 142)

زکوٰۃ کے لغوی معنی پاک کرنے، صالح اور مناسب ہونے، بڑھنے، بہترین اور لائق ہونے کے ہیں، اور یہ پانچ ارکان اسلام میں سے ایک اہم رکن ہے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ مسجد نبوی میں حضرت محمد رسول اللہ ﷺ صحابہ رضوان اللہ علیہم کے درمیان تشریف فرما تھے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام انسانی شکل میں آپ کی مجلس میں تشریف لائے اور سوال کیا: ’’ یا رسول اللہ ﷺ! اسلام کیا ہے؟آپ ﷺ نے جواباً فرمایا: اسلام کے پانچ ارکان ہیں: (1) کلمہ طیبہ (2) اقامۃ الصلوٰۃ (3) ایتاء الزکوٰۃ (4) صوم رمضان (5) حج۔ اس پر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا: صَدَقْتَ یا رسول اللہ! آپ نے درست فرمایا۔

آپ ﷺ نے فرمایا:

’’جسے اللہ نے مال دیا اور اس نے اس کی زکوٰۃ ادا نہیں کی تو قیامت کے دن اس کا مال نہایت زہریلے سانپ کی شکل اختیار کر لے گا جو اس کے گلے کا طوق ہو گا۔ پھر وہ سانپ اپنے جبڑوں سے اسے پکڑ لے گا اور کہے گا: میں تیرا مال اور خزانہ ہوں۔‘‘

(بخاری، کتاب الزکوٰۃ)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں

’’ جماعت میں بعض لوگوں کا خیال ہے کہ زکوٰۃ کا نظام رائج نہیں اور ہم اس طرف توجہ نہیں دیتے۔ جماعت میں زکوٰۃ کا نظام رائج ہے، اس لیے جن پر زکوٰۃ فرض ہے، ان کو میں توجہ دلاتا ہوں کہ زکوٰۃ دینی لازمی ہے، وہ ضرور دیا کریں۔‘‘

(خطبات مسرور، جلد 5، صفحہ 153)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مزید فرماتے ہیں

’’ زکوٰۃ کی ادائیگی کے بارے میں سوال ہوتے ہیں۔ یہ بنیادی حکم ہے۔ جن پر زکوٰۃ واجب ہے، ان کو ضرور ادا کرنی چاہیے اور اس میں بھی کافی گنجائش ہے۔ بعض لوگوں کی رقمیں کئی کئی سال بینکوں میں پڑی رہتی ہیں اور ایک سال کے بعد بھی اگر رقم جمع ہے تو اس پر بھی زکوٰۃ دینی چاہیے۔ پھر عورتوں کے زیورات ہیں، ان پر زکوٰۃ دینی چاہیے۔ جو کم از کم شرح ہے، اس کے مطابق ان زیورات پر زکوٰۃ ادا کرنی چاہیے۔ پھر بعض زمینداروں پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے، ان کو زکوٰۃ ادا کرنی چاہیے۔ تو یہ ایک بنیادی حکم ہے، اس پر بہرحال توجہ دینے کی ضرورت ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ 31 مارچ 2006ء، خطبات مسرور، جلد چہارم، صفحہ 175)

زکوٰۃ صرف مالی عبادت نہیں بلکہ یہ ایک سماجی فریضہ ہے۔ اس کے ذریعے دولت کا توازن برقرار رکھا جاتا ہے تاکہ کوئی فرد بھوک، بیماری یا ننگ سے نہ مرے۔ اسلام نے صدقہ، خیرات، عطیات، اور قرضِ حسنہ جیسے ذرائع کو بھی فروغ دیا تاکہ ہر فرد کی بنیادی ضروریات پوری ہوں۔

یتیم پروری: اسلام کی خاص ہدایت

یتیموں کے حقوق پر اسلام نے خاص طور پر زور دیا ہے۔ یتیم بچپن ہی میں اپنے والد کی شفقت سے محروم ہو جاتا ہے، اس لیے اسلام نے معاشرے کو ذمہ دار ٹھہرایا کہ وہ ان بچوں کی کفالت کرے۔  قرآنِ کریم میں ارشاد ہے:

فَأَمَّا الْيَتِيمَ فَلَا تَقْهَرْ (الضحیٰ: 9)۔ پس یتیم پر سختی نہ کرو۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

أنا وَكَافِلُ الْيَتِيمِ في الجنَّةِ هكَذا، وقال بإصبعيه السبابةِ والوسطى (بخاری)

میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ساتھ ہوں گے (جیسے یہ دو انگلیاں) ۔

اسلام میں یتیم کی پرورش، تعلیم، حفاظت اور وراثتی حقوق کی ضمانت دی گئی ہے۔ یتیم کا مال کھانے والے پر سخت وعید سنائی گئی ہے:

إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَى ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا ۔(النساء: 10)

جو لوگ یتیموں کے مال ناانصافی سے کھاتے ہیں، وہ درحقیقت اپنے پیٹوں میں آگ بھر رہے ہیں۔

اللہ تعالیٰ اپنے نیک اور پیارے بندوں کی ایک خوبی یہ بھی بیان فرماتا ہے:

وَ یُطعِمُونَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسکِینًا وَّ یَتِیمًا وَّ اَسِیرًا ۔ اِنَّمَا نُطعِمُکُم لِوَجہِ اللّٰہِ لَا نُرِیُ مِنکُم جَزَآءً وَّ لَا شُکُورًا

(سورۃ الدھر: 9-10)

اور وہ اللہ کی محبت میں مسکین، یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم صرف اللہ کی رضا کے لیے تمہیں کھلاتے ہیں، نہ تم سے بدلہ چاہتے ہیں اور نہ شکریہ۔

سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام غرباء پروری میں بہت بڑھے ہوئے تھے اور اپنے آقا حضرت محمد ﷺ کی طرح تمام مصیبت زدوں اور بے سہارا لوگوں پر دستِ شفقت رکھتے اور کبھی کسی سائل کو خالی ہاتھ نہ جانے دیتے۔ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’جو لوگ غریبوں کے ساتھ اچھے سلوک سے پیش نہیں آتے بلکہ ان کو حقیر سمجھتے ہیں، مجھے ڈر ہے کہ وہ خود مصیبت میں مبتلا نہ ہو جائیں۔ اللہ تعالیٰ نے جن پر فضل کیا ہے، اس کی شکرگزاری یہی ہے کہ اس کی مخلوق کے ساتھ اچھا سلوک کرے اور اس خدا داد فضل پر تکبر نہ کرے اور وحشیوں کی طرح غریبوں کو نہ کچل ڈالے۔ ‘‘

(ملفوظات، جلد 4، صفحہ 439)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے وقت سے خدمت خلق کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا تھا۔ حضرت میر محمد اسحٰق رضی اللہ عنہ یتامیٰ کی پرورش اور خبرگیری کے لیے اس قدر اہتمام فرماتے تھے کہ ایک مرتبہ یتامیٰ کے کھانے کے لیے ہوسٹل میں آٹا ختم ہو گیا۔ حضرت میر محمد اسحٰق صاحب رضی اللہ عنہ نے فوری طور پر، باوجود شدید علالت کے، تانگہ منگوایا اور مخیر دوستوں کو تحریک کر کے آٹا کا بندوبست کیا۔

اس کے بعد خلفاء احمدیت کی ہدایات اور راہنمائی میں یہ نظام چلتا رہا، حتیٰ کہ مارچ 1989ء میں صدسالہ جوبلی کے مبارک موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے باقاعدہ طور پر ’’کفالت یکصد یتامیٰ‘‘ کے نام سے اس تحریک کا اجراء فرمایا اور فرمایا کہ اس مبارک اور تاریخی موقع پر شکرانے کے طور پر جماعت احمدیہ ایک سو یتامیٰ کی کفالت کا ذمہ اٹھانے کا عہد کرتی ہے۔

مظلوموں کے ساتھ انصاف اور حمایت

اسلام ظلم کو سختی سے منع کرتا ہے اور مظلوم کی حمایت کو فرض قرار دیتا ہے۔ مظلوم خواہ کسی بھی قوم، مذہب یا طبقہ سے تعلق رکھتا ہو، اسلام اس کے ساتھ کھڑے ہونے کی تلقین کرتا ہے۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:انصر أخاك ظالمًا أو مظلومًا۔صحابہؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ! مظلوم کی مدد تو سمجھ میں آتی ہے، لیکن ظالم کی کیسے؟فرمایا: ظالم کو ظلم سے روکنا اس کی مدد ہے۔ (بخاری)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک نیکی مظلوم کی امداد ہے۔ بعض ملک اس لیے تباہ ہو گئے کہ ان میں مظلوم کی امداد نہیں کی جاتی تھی۔قرآنِ کریم میں ارشاد ہے: وَ لَا تَحْسَبَنَّ اللّٰهَ غَافِلًا۔ اس آیت میں ہر مظلوم کے لیے تسلی اور ہر ظالم کے لیے وعید ہے۔ نیز اس آیت میں ایک مشہور مقولے کی تائید بھی ہے کہ خدا کے ہاں دیر ہے، اندھیر نہیں۔

اسلامی معاشرے میں عدل وانصاف کی بنیاد پر فیصلے کیے جاتے ہیں۔ مظلوم کو انصاف دلانا اسلامی حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے۔

سماجی انصاف: اسلامی ریاست کا نصب العین

اسلام نے معاشرتی انصاف کے قیام پر بار بار زور دیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے مدینہ کی اسلامی ریاست میں تمام شہریوں کو برابر کے حقوق دیے۔ اسلام میں نہ نسل، نہ زبان، نہ رنگ اور نہ ہی مال ودولت انسان کی عزت کا معیار ہے، بلکہ تقویٰ معیار ہے۔

قرآنِ کریم فرماتا ہے:

إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ (الحجرات: 13)

اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔

انسانی حقوق کا سنہرا واقعہ ہے۔ رعایا کی جان ومال اور عزت و آبرو کو نقصان پہنچانے والوں کے لیے سخت سزائیں مقرر فرمائیں۔ مادیت پرستی کی بجائے ایثار و قربانی کا جذبہ پیدا کیا۔ جمہوریت، سماجی تحفظ، مذہبی آزادی، حقوقِ نسواں، بین المذاہب ہم آہنگی اور انسانی مساوات جیسے جدید تصورات کا جو شعور اقوامِ متحدہ نے 1945 میں دیا تھا، آپ ﷺ 14 صدیاں قبل ریاستِ مدینہ میں ان کا عملی نمونہ بھی پیش کر چکے تھے۔

دورِ حاضر میں اسلامی معاشروں میں سماجی انصاف کا شدید فقدان ہے جس کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک بنیادی وجہ قانون کا غیرمساوی اطلاق ہے۔ عام آدمی عدالتوں میں جانے سے پناہ مانگتا ہے۔ اداروں میں میرٹ کا قتلِ عام ہے۔ اکثر فیصلے پسند ناپسند یا ذاتی بغض وعناد کی بنا پر کیے جاتے ہیں، حالانکہ فرمانِ الٰہی ہے:

کسی قوم کی سخت دشمنی بھی تمہیں اس بات پر برانگیختہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کر سکو۔(سورہ مائدہ: 8)

الغرض، وہ تمام برائیاں جن کی بنا پر گزشتہ قومیں عذابِ الٰہی کا شکار ہوئیں، وہ آج ہمارے معاشروں میں مختلف پرکشش ناموں کے ساتھ علی الاعلان جاری و ساری ہیں۔ نبی اکرم ﷺ کی شانِ رحمۃ للعالمین ہی کا صدقہ کہ ہم اجتماعی عذاب سے محفوظ ہیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

’’پھر اپنے معاشرے میں انصاف اور عدل اور سچائی قائم کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو یہ بھی حکم دیا ہے کہ اپنے ذاتی معاشرتی اور قومی معاملات سے نکل کر بھی اعلیٰ معیار کا عدل اور انصاف قائم کرنا تمہاری ذمہ داری ہے اور غیر قوموں سے بھی عدل اور انصاف کا سلوک کرتے ہوئے اس کے اعلیٰ معیار قائم کرو۔ اگر دشمنوں کے ساتھ بھی تم نے عدل اور انصاف کے معیار قائم نہ کئے تو خیال کیا جائے گا کہ تم تقویٰ پر چلنے والے نہیں ہو۔‘پھر آپ نے سورۃ مائدہ کی آیت 9 کی تلاوت فرمائی جس کا ترجمہ یہ ہے:

اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر مضبوطی سے نگرانی کرتے ہوئے انصاف کی تائید میں گواہ بن جاؤ اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہرگز اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو۔ انصاف کرو، یہ تقویٰ کے سب سے زیادہ قریب ہے اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔ یقیناً اللہ اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے جو تم کرتے ہو۔‘‘

(خطبہ جمعہ 10 نومبر 2017ء)

اسلامی سماج میں کوئی فرد بھوکا، بے گھر یا تعلیم سے محروم نہیں رہ سکتا، کیونکہ بیت المال اور زکوٰۃ کا نظام ایسے لوگوں کی کفالت کے لیے قائم کیا گیا ہے۔ 

اسلام نے غریب، یتیم، اور مظلوم کو صرف مدد کا مستحق ہی نہیں سمجھا بلکہ ان کی خدمت کو عبادت قرار دیا ہے۔ زکوٰۃ، صدقات، یتیم پروری اور سماجی انصاف کے ذریعے ایک ایسا معاشرہ قائم کیا جا سکتا ہے جہاں ہر فرد باعزت زندگی گزار سکے۔ اگر ہم ان تعلیمات پر عمل کریں تو دنیا امن و سکون کا گہوارہ بن سکتی ہے۔

عثمان احمد استاد جامعہ احمدیہ قادیان

Leave a Reply

تازہ ترین

متعلقہ پوسٹس

سب کے حقوق برابر ہيں

ایک دن کاشف اپنے اسکول کے میدان میں دوستوں کے ساتھ کرکٹ کھیل رہا تھا۔ وہ سب ہنسی خوشی کھیل میں مصروف تھے کہ اچانک

اسلام میں عورتوں کے حقوق

رکھ پیش نظر وہ وقت بہن جب زندہ گاڑی جاتی تھی گھر کی دیواریں روتی تھیں جب دنیا میں تو آتی تھی گویا تو کنکر