’’ اسلام ‘‘امن و سلامتی کا عظیم عَلم بردار ہے، اس کی نگاہ
میں بنی نوع انسان کاہر فرد، بلاتفریقِ مذہب و ملّت احترام کا مستحق ہے۔
اسلام ان تمام حقوق میں،جو کسی
مذہبی فریضہ اور عبادت سے متعلق نہ ہوں ان کا تعلق ریاست کے نظم وضبط اور شہریوں
کے بنیادی حقوق سے ہو غیرمسلم اقلیتوں اور مسلمانوں کے درمیان عدل وانصاف اور
مساوات قائم کرنے کا حکم دیتا ہے۔ قرآن میں ان غیرمسلموں کے ساتھ، جو اسلام اور
مسلمانوں سے عداوت نہ رکھتے ہوں اور نہ ان کے خلاف کسی شازشی سرگرمی میں مبتلا
ہوںتو ایسے لوگوں کے لئے سیدنا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺنے خیرخواہی، مروت، حسن سلوک اور
رواداری کی تعلیم دی ہےبلکہ یہ کہنا چاہئے کہ تاکیدی ہدایت کی ہے۔
اسلامی ریاست میں تمام غیرمسلم
اقلیتوں اور رعایا کو عقیدہ، مذہب، جان ومال اور عزت وآبرو کے تحفظ کی ضمانت حاصل
ہوگی۔ وہ انسانی بنیاد پر شہری آزادی اور بنیادی حقوق میں مسلمانوں کے برابر شریک
ہوں گے۔ قانون کی نظر میں سب کے ساتھ یکساں معاملہ کیا جائے گا، بحیثیت انسان کسی
کے ساتھ کوئی امتیاز روا نہیں رکھا جائے گا۔ جزیہ قبول کرنے کے بعد ان پر وہی
واجبات اور ذمہ داریاں عائد ہوں گی، جو مسلمانوں پر عائد ہیں، انہیں وہی حقوق حاصل
ہوں گے جو مسلمانوں کو حاصل ہیں اور ان تمام مراعات و سہولیات کے مستحق ہوں گے، جن
کے مسلمان ہیں۔
قارئین کرام!!اللہ تعالیٰ
نےانسان کو عقل و فہم عطاکی ہے، تاکہ وہ اندھا بہرا ہو کر کسی چیز کو قبول نہ کرے۔
اللہ پر ایمان و یقین یعنی توحید اسلام کا سب سے بنیادی ستون ہے مگر اس توحید کے
ماننے میں بھی قرآن پاک عوام الناس کو غور و فکر کی دعوت دیتا ہے اور اس کی عقل
کو جامد اور اپنے ماحول کا پابند کرنے کے بجائے وہ اس وسیع و عریض دنیا اور پوری
کائنات کی وسعت پر غور کرنے پر ابھارتا ہے، اس لیے کہ جب انسان کائنات کی تخلیق
اور اس کے نظام پر غور کرے گا تو اس کی عقل و فہم وحدانیت ماننے پر اسے مجبور کریں
گے اور وہ خود بخود پکار اٹھے گا کہ اس کائنات کا ایک ہی خالق و مالک ہے، قرآن کی
سیکڑوں آیتوں میں اسے غور و فکر پر ابھارا گیا ہے۔
جب خیبر فتح ہوا تو یہودی بستیوں
پر غلبہ حاصل کرلینے کے بعد ان پر جزیہ لگایا گیا جو ایک تاوان جنگ کی سی صورت میں
تھا۔ اس کے بعد اسلامی حکومت میں وسعت ہوئی اور مسلمانوں کو ۱۰ھ کے آتے آتے تمام جزیرۃ العرب پر غلبہ حاصل ہوگیا، اب
غیر مسلم رعایا کا مسئلہ پیدا ہوا تو اسلامی تاریخ میں یہ حقائق موجود ہیں کہ
اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کو تمام بنیادی حقوق عطا کیے گئے ۔ دنیا کی تاریخ اس
بات پر گواہ ہے کہ فاتح قوم نے کبھی بھی مفتوح اقوام کو اپنے برابر کے حقوق نہیں دیئے
، زمانۂ قبل از تاریخ سے آج تک کی تاریخ میں ایسے ہزارہا واقعات مل جائیں گے کہ
فاتح قوم نے نہ صرف یہ کہ مفتوح قوم کو غلام بنایا، بلکہ ان کے مذہب، ثقافت اور معیشت
تک کو برباد کیا۔
انسانی فطرت سے اس کی توقع کی
جاسکتی تھی کہ مسلمان جب غالب ہوگئے تھے اور جزیرۃ العرب میں بسنے والے دیگر مذاہب
کے پیرو کار جو ان کے رسولﷺ اور دین کو نہیں مان رہے تھے اور ہمیشہ سے ان سے برسرپیکار
رہے تھے، ایسے میں مسلمان ان سے کم از کم بہت نرم برتاؤ بھی کرتے تو ان کو اپنا
آبائی دین چھوڑ کر اسلام قبول کرنے کے لیے مجبور کرسکتے تھے ،اس لیے کہ وہ غالب
تھے۔
یہاں
پر بھی قرآن حکیم نے صاف صاف بتا دیا کہ مسلمان غالب ہوں یا مغلوب، ان کے لیے یہ
جائز نہیں کہ وہ کسی دوسرے مذہب کے پیروکار کوجبراً مسلمان بنائیں، ارشاد ہوا’’
لااکراہ فی الدین‘‘۔ یہ ایک بنیادی اصول بتا دیا گیا ہے کہ دین کے قبول کرنے میں یا
کسی دین کو رد کرنے میں کسی کو مجبور نہیں کیا جاسکتا۔
آنحضرت ﷺ کی سیرت طیبہ اور
خلفائے راشدینؓ کے دور خلافت میں کوئی ایک بھی ایسی مثال نہیں ملتی جس سے اسلام کی
تبلیغ میں زور، جبر، یا تشدد استعمال کیا گیا ہوثابت ہوتا ہے۔
کیوں
کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہے کہ دین کے بارے میں کسی قسم کا جبر نہیں۔ اس کے
علاوہ اگر اللہ تعالیٰ جس نے پورے کائنا ت کوپیدا کیا اگروہ چاہتا توسب کو مومن
بنا دیتا۔
جو لوگ جنگ کے بغیر، یا دوران
جنگ میں اطاعت قبول کرنے پر راضی ہو جائیں اور حکومت اسلامی سے مخصوص شرائط طے کرلیں،
ان کے لیے اسلام کا قانون یہ ہے کہ ان کے ساتھ تمام معاملات ان شرائط صلح کے تابع
ہوں گے جو ان سے طے ہوئی ہوں۔ دشمن کو اطاعت پر آمادہ کرنے کے لیے چند فیاضانہ
شرائط طے کرلینا اورپھر جب وہ پوری طرح قابو میں آجائے تو اس کے ساتھ مختلف
برتائو کرنا آج کل کی مہذب قوموں کے سیاسی معمولات میں سے ہےمگر اسلام اس کو
ناجائز بلکہ حرام اور گناہ عظیم قرار دیتا ہے۔ اس کے نزدیک یہ ضروری ہے کہ جب کسی
قوم کے ساتھ کچھ شرائط طے ہو جائیں (خواہ وہ مرغوب ہوں‘ یا نہ ہوں) تو اس کے بعد
ان شرائط سے یک سر مُو تجاوز نہ کیا جائے بلالحاظ اس کے کہ فریقین کی اعتباری حیثیت
اور طاقت وقوت (relative position) میں کتنا ہی فرق آ جائے۔ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
لَعَلَّکُمْ تُقَاتِلُوْنَ
قَوْمًا فَتَظْھَرُوْنَ عَلَیْھِمْ فَیَتَّقُوْنَکُمْ بِاَمْوَالِھِمْ دُوْنَ
اَنْفُسِھِمْ وَاَبْنَائِھِمْ قَالَ سَعِیْدٌ فِیْ حَدِیْثِہٖ فَیُصَالِحُوْنَکُمْ
عَلٰی صُلْحٍ فَلاَ تُصِیْبُوْا مِنْھُمْ فَوْقَ ذٰلِکَ فَاِنَّہ‘ لَایَصْلُحُ
لَکُمْ۔
(ابودائود‘حدیث ۳۰۲۷)
اگر تم کسی قوم سے لڑو اور اس
پر غالب آجائو اور وہ قوم اپنی اور اپنی اولاد کی جان بچانے کے لیے تم کو خراج دینا
منظور کر لے
(ایک اور حدیث
میں ہے کہ تم سے صلح نامہ طے کرلے) تو پھر بعد میں اس مقررہ خراج سے ایک حبہ
(دانہ)بھی زائد نہ لینا کیونکہ وہ تمہارے لیے ناجائز ہوگا۔
ایک اور حدیث میں ہے کہ
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اَلاَ مَنْ ظَلَمَ مُعَاھِدًا
اَوِ انْتَقَصَہ‘ اَوْکَلَّفَہ‘فَوْقَ طَاقَتِہٖ اَوْ اَخَذَ مِنْہُ شَیْئًا بِغَیْرِ
طِیْبِ نَفْسٍ فَاَنَا حَجِیْجُہ‘ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ۔
(ابودائود، حدیث ۳۰۲۸)
خبردار! جو شخص کسی معاہد پر
ظلم کرے گا، یا اس کے حقوق میں کمی کرے گا، یا اس کی طاقت سے زیادہ اس پر بار ڈالے
گا یا اس سے کوئی چیز اس کی مرضی کے خلاف وصول کرے گا اس کے خلاف قیامت کے دن میں
خودفریادی بنوں گا۔
مذکورہ دونوں احادیث سے
واضح ہوتا ہے کہ ذمیوں کے ساتھ صلح نامے میں جو شرائط طے ہواُن میں کسی قسم کی
کمی یا زیادتی کرنا ہرگزجائز نہیں ہے۔
حضرت
عمرؓ نے مفتوحین سے متعلق حضرت عبیدہؓ کو صاف لکھا تھا کہ:
فَاِذَا اَخَذْتَ مِنْھُمُ
الْجِزْیَۃَ فَلاَ شَیْئَ لَکَ عَلَیْھِمْ وَلَاسَبِیْلَ۔
(کتاب الخراج، ص82)
جب تم ان سے جزیہ قبول کرلو تو
پھر تم کو ان پر دست درازی کا کوئی حق باقی نہیں رہتا۔
ذمی کے خون کی قیمت مسلمان کے
خون کے برابر ہے۔ اگر کوئی مسلمان ذمی کو قتل کرے گا تو اس کا قصاص اسی طرح لیا
جائے گا جس طرح مسلمان کو قتل کرنے کی صورت میں لیا جاتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ
وسلم کے زمانے میں ایک مسلمان نے ایک ذمی کو قتل کیا تو آپ نے اس کے قتل کا حکم دیا
۔
حضرت عمرؓ کے زمانے میں ایک
شخص نے ایک ذمی کو قتل کردیا۔اس پر آپؓ نے حکم دیا کہ قاتل کو مقتول کے ورثا کے
حوالے کیا جائے۔ چنانچہ وہ مقتول کے وارثوں کو دے دیا گیا اور انہوں نے اس کو قتل
کر دیا۔
ذمی
اور مسلمانوں میں فوجداری اور دیوانی قانون یکساں ہے اور اس میں دونوں کا درجہ
مساوی ہے۔ جرائم کی جو سزا مسلمان کو دی جائے گی وہی ذمی کو بھی دی جائے گی۔ ذمی
کا مال مسلمان چرالے یا مسلمان کا مال ذمی چرالے دونوں صورتوں میں سارق کا ہاتھ
کاٹا جائے گا۔تجارت کے جو طریقے ہمارے لیے ممنوع ہیں وہی ان کے لیے بھی ہیں۔ذمی کو
زبان ہاتھ پائوں سے تکلیف پہنچانا، اس کو گالی دینا مارنا پیٹنا یا اس کی غیبت
کرنا، اسی طرح ناجائز ہے جس طرح مسلمان کے حق میں یہ افعال ناجائز ہیں۔
یہاں یہ ذکر مناسب ہےکہ وہ بستیاں
جو اسلامی شہروں میں داخل نہیں ہیں، ان میں ذمیوں کو صلیب نکالنے، ناقوس اور گھنٹے
بجانے اور مذہبی جلوس نکالنے کی آزادی ہوگی، اگر ان کی عبادت گاہیں ٹوٹ پھوٹ جائیں،
تو ان کی مرمت اور ان کی جگہوں پر نئی عبادت گاہیں بھی تعمیر کرسکتے ہیں۔ البتہ ان
شہروں میں، جو جمعہ عیدین، اقامت حدود اور مذہبی شعائر کی ادائیگی کے لیے مخصوص ہیں،
انہیں کھلے عام مذہبی شعائر ادا کرنے اور دینی و قومی جلوس نکالنے کی اجازت نہیں دی
جاتی تھی اور نہ وہ ان جگہوں میں نئی عبادت گاہیں تعمیر کرسکتےتھے۔ البتہ عبادت
گاہوں کے اندر انہیں مکمل آزادی حاصل ہوگی۔ اور عبادت گاہوں کی مرمت بھی کرسکتے ہیں۔کیونکہ
ارشادِ ربانی ہےکہ دین کے بارے میں کوئی زبردستی نہیں ۔
بہر حال تاریخ سے واقف کار لوگ
جانتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے صرف تعلیم ہی نہیں دی بلکہ ان تعلیمات پر عمل کر
کے دکھایا ہے۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مسلمان حکومتوں کو آنحضرت ﷺ کی پُر امن
تعلیمات پرکما حقہ عمل پیرا ہونے کی توفیق دے۔آمین
شیخ ریحان مربی
سلسلہ قادیان