اخلاق، انسانی شخصیت کا وہ پہلو ہے جو اس کے باطن کی آئینہ
داری کرتا ہے۔ یہ محض ظاہری آداب کا نام نہیں، بلکہ دل کی اس کیفیت کا مظہر ہے جو
انسان کے اقوال وافعال، رویوں اور طرزِ عمل سے جھلکتی ہے۔ درحقیقت حسنِ اخلاق وہ
کمال ہے جو انسان کو انسانیت کے بلند ترین درجے پر فائز کر دیتا ہے۔
رسولِ
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ اس باب میں کامل نمونہ ہے۔ ارشادِ باری
تعالیٰ ہے:
’’ وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِیمٍ‘‘۔ (القلم: 5)
یعنی ’’ یقیناً تُو بلند اخلاق پر فائز ہے‘‘۔
حضرت
ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب ؓ نے اپنے کلام میں حضور ﷺ کے اس وصف کو ان الفاظ میں
بیان فرمایا :
پھر اس پر وہ اخلاق اکمل تریں
کہ دشمن بھی کہنے لگے آفریں
زہے خلق کامل زہے حسن تام
علیک الصلوٰة علیک السلام
حضرت
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ:
إِنَّ مِنْ أَحَبِّكُمْ إِلَی وَأَقْرَبَكُمْ مِنِّی مَجْلِسًا یوْمَ الْقِیامَةِ
أَحَاسِنُكُمْ أَخْلَاقًا۔
(ترمذی)
یقیناً تم میں سے جو لوگ میرے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہیں اور قیامت کے دن
جو میری سب سے زیادہ قربت میں ہوں گے، وہ تم میں سے بہترین اخلاق والے ہیں۔
یہ حدیث اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ اخلاق کا معیار نہ
صرف دنیا میں انسان کے تعلقات کو بہتر بناتا ہے بلکہ قیامت کے دن بھی انسان کے
مقام کو بلند کرتا ہے۔ جس طرح ایک خوبصورت روح والے انسان کے عمل سے اس کی شخصیت کی
حقیقت ظاہر ہوتی ہے، اسی طرح اخلاقی خوبیوں کے حامل افراد کو اللہ تعالیٰ اپنی
قربت سے نوازتا ہے۔
حضرت
مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں:
’’ اس جماعت کو
تیار کرنے سے غرض یہی ہے کہ زبان، کان، آنکھ اور ہر ایک عضو میں تقویٰ سرایت کر
جاوے۔ تقویٰ کا نور اس کے اندر اور باہر ہو۔ اخلاق حسنہ کا اعلیٰ نمونہ ہو اور بے
جا غصّہ اور غضب وغیرہ بالکل نہ ہو۔میں نے دیکھا ہے کہ جماعت کے اکثر لوگوں میں
غصّے کا نقص اب تک موجود ہے۔ تھوڑی تھوڑی سی بات پر کینہ اور بغض پیدا ہو جاتا ہے
اور آپس میں لڑ جھگڑ پڑتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا جماعت میں سے کچھ حصہ نہیں ہوتا اور
مَیں نہیں سمجھ سکتا کہ اس میں کیا دقّت پیش آتی ہے کہ اگر کوئی گالی دے تو دوسرا
چپ کر رہے اور اس کا جواب نہ دے۔ ہر ایک جماعت کی اصلاح اوّل اخلاق سے شروع ہوا
کرتی ہے۔ چاہئے کہ ابتدا میں صبر سے تربیت میں ترقی کرے اور سب سے عمدہ ترکیب یہ
ہے کہ اگر کوئی بدگوئی کرے اس کے لئے درد دل سے دعا کرے کہ اللہ تعالیٰ اس کی
اصلاح کر دیوے اور دل میں کینے کو ہرگز نہ بڑھاوے۔ جیسے دنیا کے قانون ہیں ویسے
خدا کا بھی قانون ہے۔ جب دنیا اپنے قانون کو نہیں چھوڑتی تو اللہ تعالیٰ اپنے
قانون کو کیسے چھوڑے۔ پس جب تک تبدیلی نہیں ہو گی تب تک تمہاری قدر اس کے نزدیک
کچھ نہیں۔ خدا تعالیٰ ہرگز پسندنہیں کرتا کہ حلم اور صبر اور عفو جو کہ عمدہ صفات
ہیں ان کی جگہ درندگی ہو۔ اگر تم ان صفات حسنہ میں ترقی کرو گے تو بہت جلدی خدا تک
پہنچ جاؤ گے‘‘۔
(ملفوظات
جلد 7صفحہ 128-127)
آج ہم جس دور میں جی رہے ہیں، اس میں جہاں ترقی اور فنی
مہارتوں میں اضافہ ہو رہا ہے، وہیں اخلاقی انحطاط بھی ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ لیکن
اگر ہم اپنے اخلاق کو اسلامی تعلیمات کے مطابق بہتر بنائیں، تو نہ صرف ہم اپنے ذاتی
تعلقات میں بہتری لا سکتے ہیں بلکہ پورے معاشرے میں ایک اخلاقی انقلاب برپا کر
سکتے ہیں۔
عصر حاضر میں جب اختلاف رائے، برداشت کی کمی، اور اخلاق
رزیلہ کاغلبہ ہے، تو ہمیں بطور احمدی
مسلمان اخلاقِ محمدیؐ اور تعلیماتِ مسیح موعودؑ کو اپناتے ہوئے اس معاشرتی اندھیرے
میں چراغ بننا ہوگا۔جیسا کہ مقولہ مشہور ہے’’چراغ سے چراغ جلتا ہے‘‘۔تبھی ہم خود
کو مسیح پاک ؑ کے نور سے منور ہو کر دنیا کو منور کر سکتے ہیں ۔
ہمیں
امید ہے کہ مشکوٰة کا یہ شمارہ محض مطالعہ کی حد تک محدود نہ رہے، بلکہ ہر قاری کے
دل وعمل میں ایک مثبت تبدیلی، اور روحانی بیداری کا ذریعہ بنے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں
حسنِ اخلاق کو نہ صرف اپنانے، بلکہ اسے اپنے کردار کی پہچان بنانے کی توفیق عطا
فرمائے—آمین۔
(سلیق
احمد نائک)