سائنس کا سفر یونان سے بغداد تک

لفظ ’’ سائنس‘‘لاطینی زبان سے ماخوذ ہے، جس کے لغوی معنی ’’ علم‘‘کے ہیں۔ سائنس دراصل کائنات اور فطرت میں موجود قوانین وحقائق کے دریافت کرنے کا نام ہے نہ کہ کسی خودساختہ نظریے یا خیال کا۔ چونکہ یہ کائنات خدا تعالیٰ کی تخلیق ہے اس لئے فطرت کی ہر حقیقت جو سائنس دریافت کرتی ہے دراصل خدا کی قدرت کی ایک جھلک ہوتی ہے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ کائنات خدا کا فعل ہے اور آسمانی صحیفے اُس کا کلام۔

مناظرِ قدرت، موجوداتِ عالم، ان کی صفات اور باہمی تعلقات کو جاننے اور سمجھنے کا عمل سائنس کہلاتا ہے۔ انسان کی زندگی کے ہر دور اور ہر مرحلے میں سائنس کا عمل دخل رہا ہےاس لئے بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ سائنس انسانی زندگی کا ایک لازمی جزو بن چکی ہے۔

یونانی دورِ سائنس

سائنس کا باقاعدہ آغاز قدیم یونان سے ہواجہاں صدیوں تک علم و فلسفہ کا غلبہ رہا۔ یونان کے فلسفی، سائنس دان، ریاضی دان اور مفکرین دنیا بھر میں شہرت رکھتے تھے، اور وہاں کے تعلیمی مراکز دور دور سے علم حاصل کرنے کے لئے آنے والوں کا مرکز تھے۔

یونانی سائنس کی بنیاد ریاضی سے پڑی۔ ارشمیدس (Archimedes) اور فیثا غورث (Pythagoras) یونان کے دو عظیم ریاضی دان گزرے ہیں۔ ارشمیدس نے میکانکس پر بے پناہ تحقیق کی۔ اس کا مشہور اصول ’’ارشمیدس پرنسپل‘‘آج بھی سائنس کا بنیادی حصہ ہے۔ روایت کے مطابق جب اس نے ایک پیچیدہ مسئلے کا حل دریافت کیا تو خوشی کے مارے بازار میں ننگے پاؤں دوڑتا ہوا چیخنے لگا:

’’یوریکا!یوریکا!‘‘(Eureka! Eureka!) یعنی ’’مجھے حل مل گیا!‘‘

یونانی آرکیٹیکچر میں جیومیٹری کا گہرا استعمال تھا اور عمارتوں کی تعمیر میں فزکس کا بھی بھرپور دخل رہا۔ یونانیوں نے علم ہیئت (Astronomy) کو بھی ترقی دی اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ نظریاتی سائنس (Theoretical Science) کی بنیاد رکھی جہاں فطرت اور اشیاء کے بارے میں سوالات اُٹھا کر علم حاصل کرنے کی روایت قائم کی گئی۔

یونانی سائنس دانوں اور مفکرین میں نمایاں نام یہ ہیں:

بطلیموس (Ptolemy) – علم ہیئت اور جغرافیہ

سقراط، افلاطون، ارسطو – فلسفہ

ہیروڈوٹس – تاریخ

ہومر – شاعری

یونان کے چند مشہور علمی کارنامے درج ذیل ہیں:

بقراط: Elements

افلاطون: Republic

ارسطو: Poetics, Rhetoric, Comic Sections

اقلیدس: Elements (جیومیٹری)

اپالونیس: Conics

ارشمیدس: The Sphere and the Cylinder

یونانی علوم کا زوال

تیسری صدی قبل مسیح کے بعد یونان زوال پذیر ہونے لگا۔ جب یونان نے اپنے ہمسایہ ممالک سے مسلسل جنگیں شروع کیں تو رومن ایمپائر سے شکست نے اس کے زوال کی رفتار تیز کر دی۔ نتیجتاًعلمی سرگرمیاں ماند پڑ گئیں، سائنسی تحقیق رک گئی اور علمی ادارے ویرانی کا شکار ہو گئے۔

اسکندریہ کا سائنسی کردار

مصر کا قدیم شہر اسکندریہ سائنس کے ایک نئے مرکز کے طور پر ابھرا۔ 323 قبل مسیح میں سکندر اعظم کی وفات کے بعد مصر پر اس کے جنرل بطلیموس نے قبضہ کیا اور اس کے خاندان نے تقریباً تین صدیوں تک حکومت کی۔ انہوں نے اسکندریہ میں ایک عظیم لائبریری اور میوزیم قائم کیاجو بعد میں علم و سائنس کا مرکز بن گیا۔

یہاں اقلیدس (Euclid 330–260 BC) نے جیومیٹری پر اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’Elements‘‘لکھی جو اگلے دو ہزار سال تک ریاضی کی دنیا میں مرکزی حیثیت رکھتی رہی۔ اسی لائبریری میں ارشمیدس (287–212 BC) نے بھی علمی خدمات سرانجام دیں جن میں چکر دار پیچ (Screw) اور ہائڈروسٹیٹکس (Hydrostatics) کے اصول شامل ہیں۔

بطلیموس اور گیلن

بطلیموس (Claudius Ptolemy 100–178 AD) نے جغرافیہ اور علم ہیئت پر گراں قدر کام کیا۔ اس کی مشہور کتاب ’’الماجستی‘‘(Almagest) جو دراصل یونانی کتاب ’’Megale Mathematike Syntaxis‘‘کا عربی ترجمہ ہےآج بھی فلکیات کی بنیاد سمجھی جاتی ہے۔

اسی دور میں ایک مشہور طبیب گیلن (Galen 130AD200) بھی گزرا، جو طب میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے۔ اس نے تقریباً 400 کتابیں لکھیں، جن میں سے 140 یونانی زبان میں دستیاب تھیں۔ وقت کے ساتھ اصل کتابیں تو ضائع ہو گئیں، لیکن ان کے عربی اور لاطینی تراجم باقی رہ گئے۔

یونانی ورثے کی منتقلی

جب بیزنطینی حکومت میں بادشاہوں کو علم سے دلچسپی ختم ہو گئی تو اسکندریہ کی عظیم لائبریری کو بادشاہ تھیوڈوس دوم کے حکم پر نذرِ آتش کر دیا گیا۔ بعد ازاںافلاطون کی اکیڈمی اور دیگر علمی ادارے بھی بند کر دئے گئے۔

یونانی راہبوں بالخصوص نسطوری (Nastorian) مسیحیوں نے اپنا علمی ورثہ بچانے کے لئے ایران ہجرت کی جہاں ساسانی حکمرانوں نے انہیں پناہ دی۔ وہاں انہوں نے اپنی مذہبی و سائنسی کتابوں کے سریانی اور کلدانی زبانوں میں تراجم کئے۔

اسلامی دنیا میں علمی انقلاب

جب مسلمانوں نے ایران اور شام فتح کیا تو انہیں یہ علمی خزانے ہاتھ لگے۔ خلافتِ عباسیہ کے دور میں بغداد میں باقاعدہ تراجم کا سلسلہ شروع ہوا۔ تقریباً ایک صدی تک (750–850ء) یہ تراجم جاری رہے اور بعد ازاں بھی کئی کتابوں کے عربی ترجمے ہوئے۔ اس تحریک سے اسلامی سائنس کا زریں دور شروع ہوا۔

مسلمان سائنس دانوں نے صرف یونانی علوم کو محفوظ نہیں کیا بلکہ اس میں تحقیق، اضافہ اور اطلاقی تجربات کے ذریعے نئی راہیں کھولیں۔ یونانی علوم زیادہ تر نظریاتی تھے جبکہ مسلم سائنس دانوں نے عملی تجربے کو بنیاد بنایا۔

نتیجہ

اگلے تین صدیوں تک اسلامی دنیا علم وفن، سائنس و ٹیکنالوجی کی قیادت کرتی رہی۔ بغداد سے لے کر قرطبہ تک ہر شہر علم کا گہوارہ بنا۔ جیسا کہ مشہور مستشرق میکس میئرہاف (Max Meyerhof) لکھتا ہے:

’’ڈوبتے ہوئے یونانی سورج کی روشنی کو لے کر اسلامی سائنس کا چراغ چمکا، جس نے یورپ کی تاریک ترین رات کو منور کیا۔ یہ چراغ اس وقت بجھا جب یورپ میں نشاةِ ثانیہ کا سورج طلوع ہوا۔‘‘

(انتخاب از کتاب مسلمانوں کے سائنسی کارنامے  از مکرم محمد ذکریا ورک)

Leave a Reply

تازہ ترین

متعلقہ پوسٹس

نور کا راز

ایک دن کی بات ہے، 12 سالہ احمد اپنے کمرے میں بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے اپنے ابو سے ایک دن پہلے سوال کیا تھا:

سائنس کا سفر یونان سے بغداد تک

لفظ ’’ سائنس‘‘لاطینی زبان سے ماخوذ ہے، جس کے لغوی معنی ’’ علم‘‘کے ہیں۔ سائنس دراصل کائنات اور فطرت میں موجود قوانین وحقائق کے دریافت

علم حاصل کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں : ’’ رَبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ دعا سکھا