حضرت امام مہدی و مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
خدا جانتا ہے کہ کبھی ہم نے جواب کے وقت نرمی اور آہستگی کو ہاتھ سے نہیں دیا اور ہمیشہ نرم اور ملائم الفاظ سے کام لیا ہے۔ بجز اس صورت کے کہ بعض اوقات مخالفوں کی طرف سے نہایت سخت اور فتنہ انگیز تحریریں پا کر کسی قدر سختی مصلحت آمیز اس غرض سے ہم نے اختیار کی کہ تا قوم اس طرح سے اپنا معاوضہ پا کر وحشیانہ جوش کو دبائے رکھے۔اور یہ سختی نہ کسی نفسانی جوش سے اور نہ کسی اشتعال سے بلکہ محض آیت اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَہِ وَالْمَوْعِظَۃ الْحَسَنَۃِوَجَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ (النحل: 126) پر عمل کر کے ایک حکمت عملی کے طور پر استعمال میں لائی گئی۔ اور وہ بھی اس وقت کہ مخالفوں کی توہین اور تحقیر اور بدزبانی انتہا تک پہنچ گئی اور ہمارے سید و مولیٰ، سرورِ کائنات، فخرِموجودات کی نسبت ایسے گندے اور پُر شر الفاظ ان لوگوں نے استعمال کئے کہ قریب تھا کہ ان سے نقضِ امن پیدا ہو تو اس وقت ہم نے اس حکمت عملی کو برتا۔
(البلاغ، (فریاددرد) روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 385)
ایک اور جگہ آپ فرماتے ہیں:
آیت جَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ کا یہ منشاء نہیں ہے کہ ہم اس قدر نرمی کریں کہ مداہنہ کر کے خلافِ واقعہ بات کی تصدیق کر لیں۔ کیا ہم ایسے شخص کو جو خدائی کا دعویٰ کرے اور ہمارے رسول کو پیشگوئی کے طور پر کذّاب قرار دے اور حضرت موسیٰ کا نام ڈاکو رکھے، راستباز کہہ سکتے ہیں۔ کیا ایسا کرنا مجادلۂ حسنہ ہے؟ ہرگز نہیں۔ بلکہ منافقانہ سیرت اور بے ایمانی کا ایک شعبہ ہے۔
(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 305 حاشیہ)