ایک دن کاشف اپنے اسکول کے میدان
میں دوستوں کے ساتھ کرکٹ کھیل رہا تھا۔ وہ سب ہنسی خوشی کھیل میں مصروف تھے کہ
اچانک ایک نیا بچہ، ریحان، وہاں آ پہنچا۔ ریحان ابھی ابھی اس اسکول میں داخل ہوا
تھا۔ اس کے کپڑے سادہ سے تھے، جوتے پرانے اور چہرے پر ہلکی سی گھبراہٹ تھی۔ وہ کھیلنا
چاہتا تھا مگر کچھ کہہ نہیں پا رہا تھا۔
کاشف کے ایک دوست علی نے کہا،
’’یہ نیا بچہ ہے، ہمیں اسے اپنے کھیل میں شامل نہیں کرنا چاہیے۔ ہماری پہلے سے ہی
ٹیم مکمل ہے۔‘‘
دوسرے دوست بھی اس بات پر ہاں
میں ہاں ملانے لگے۔
ریحان یہ سن کر خاموشی سے ایک
درخت کے نیچے جا کر بیٹھ گیا۔ اس کے چہرے پر اداسی صاف نظر آ رہی تھی۔ کاشف نے یہ
منظر دیکھا تو وہ سوچ میں پڑ گیا۔ اُسے اپنی اُستاد کا سبق یاد آیا:
’’انسانی حقوق سب کے لیے برابر
ہیں۔ کسی کو بھی رنگ، نسل، یا کپڑوں کی بنیاد پر کمتر نہ سمجھو۔ ہر بچے کو محبت،
عزت اور دوستی کا حق حاصل ہے۔‘‘
کاشف کچھ لمحے رُکا، پھر اپنے
دوستوں سے بولا،
’’ریحان نیا ہے، لیکن وہ بھی
ہمارے جیسا بچہ ہے۔ اسے بھی کھیلنے کا اتنا ہی حق ہے جتنا ہمیں۔ اگر ہم اُسے ساتھ
نہیں لیں گے تو وہ خود کو اکیلا محسوس کرے گا۔ ہم سب کو ایک دوسرے کا خیال رکھنا
چاہیے۔‘‘
پھر کاشف ریحان کے پاس گیا،
مسکرایا اور بولا،
’’آؤ ریحان! ہمارے ساتھ کھیلو۔
تم ہمارے نئے دوست ہو۔‘‘
ریحان کی آنکھوں میں خوشی
جھلکنے لگی۔ وہ اٹھا اور بچوں کے ساتھ کھیلنے لگا۔ جلد ہی سب بچے ہنسی خوشی کھیل میں
مصروف ہو گئے۔ اب سب کو اندازہ ہو چکا تھا کہ انسانیت کا مطلب صرف اپنے لیے خوشی
نہیں، بلکہ دوسروں کو بھی خوش رکھنا ہے۔
سبق
ہر انسان کو عزت، محبت، تعلیم،
کھیل، اور دوستی کا حق حاصل ہے۔ ہمیں دوسروں کے لباس، رنگ، یا حالات کی وجہ سے اُن
سے مختلف سلوک نہیں کرنا چاہیے۔
انسانی حقوق کا تقاضا ہے کہ ہم
سب کو برابری کی نظر سے دیکھیں اور ایک دوسرے کی مدد کریں۔