کافر کون

لفظ ’’کافر‘‘ نظر کے سامنے آتے ہی ایک انسان کے ذہن میں مختلف سوالات گردش کرنے لگتے ہیں اور کئی وساوس انسان کے دل میں پیدا ہونے لگتے ہیں مثلاًکافر کسے کہتے ہیں ؟ کیا کسی شخص کو حق ہے کہ کسی دوسرے شخص کو کافر کہے؟کیا اسلام کافروں کے ساتھ امتیازی سلوک کرتا ہے ؟ کیا اسلام تمام کافروں سے جنگ کرنے کا حکم دیتا ہے ؟

اسی طرح کے کئی سوالات ہے جن کے صحیح اور صاف جواب نہ ملنے کی وجہ سے اسلام کی نسبت بدگمانی پیدا ہوتی ہے اور ایک شخص اسلام کی نسبت خود ساختہ عقیدہ تراش لیتا ہے کہ گویا اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو نفرت کی تعلیم دیتا ہے۔ایسے ہی کچھ سوالات کے قرآن و حدیث کی روشنی میں کسی قدر تفصیلی جواب دینا ہمارے اس مضمون کا مقصد ہے ۔

کافر کون ہے ؟

لغت کے اعتبار سے کافرکا مطلب ہے’’ انکار کرنے والا‘‘  ان معنوں کی رو سے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ایک مسلمان کے لئے بھی کافر لفظ کا استعمال کرتا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِنْ بِاللَّہِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَیٰ لَا انْفِصَامَ لَہَا وَاللَّہُ سَمِيعٌ عَلِیْمٌ(سورۃ البقرہ آیت 257)

پس جو کوئی شیطان کا انکار کرے اور اللہ پر ایمان لائے تو یقیناً اس نے ایک ایسے مضبوط کڑے کو پکڑ لیا جس کا ٹوٹنا ممکن نہیں ۔اور اللہ بہت سننے والا(اور)دائمی علم رکھنے والا ہے ۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایک مسلمان کو بھی کافر یا انکار کرنے والابیان فرما یا ہے ۔ ایسا شخص جو کسی بھی انسان،مذہب یاکسی چیز کا انکار کرتا ہے تو ایسے شخص کو اس انسان ،مذہب یا چیز کا کافر کہیں گے۔ پس ایسا شخص جو اسلام اور بانیٔ اسلام نبی کریم ﷺ کا انکار کرتا ہے ایسے شخص کے لئے لفظ کافر جائے اعتراض نہیں کیونکہ کافر کا مطلب ہے انکار کرنے والا اور ایسا شخص خود اپنی زبان سے اسلام کا اور محمدﷺ کی نبوت کا انکار کرتا ہے لیکن اگر کوئی شخص اپنی زبان سے اسلام لانے کا اقرار کرتا ہےاور اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہےتو  ایسے شخص کو کافر کہنے کا حق کسی انسان کو نہیں ہے ۔

چنانچہ حضرت محمد مصطفی ٰ ﷺ کے دعویٰ نبوت کے بعد وہ لوگ جنہوں نے آپ ﷺ کی نبوت کو تسلیم کیا ان کا نام اللہ تعالیٰ نے مسلمان رکھا۔

(سورۃالحج آیت 18)

اسی طرح وہ لوگ جنہوں نے نبی کریم ﷺ کا انکار کیا ان کو کافریعنی اسلام کا انکار کرنے والا کہا گیا ۔

لیکن جیسا کہ آگے چل کر بیان ہوگا کہ اللہ تعالیٰ اس انکار کے نتیجہ میں ہرگز کسی انسان کے ساتھ امتیازی سلوک کرنے کا حکم نہیں دیتا ۔

ایک مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو کافر کہہ سکتا ہے ؟

اللہ تعالیٰ نے کسی انسان کو یہ حق نہیںدیا کہ وہ  دوسروں کے ایمان کا فیصلہ کرے یاجو شخص خود کو مسلمان کہے اسے کافر قرار دے ۔تاریخ اور احادیث صحیحہ میں اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں کہ جب ایک شخص نے اپنی زبان سے مسلمان ہونے کا اقرار کر لیا تو پھر اس کے باطن کا معاملہ اللہ کے ساتھ ہے چنانچہ ہمیں کوئی ایسی سند نہیں ملتی جس میں کسی شخص نے اپنے مسلمان ہونے کا اقرار کیا ہو اور پھر نبی کریم ﷺ نے اسے کافر قرار دیا ہویہاں تک کہ وہ منافق جنہوں نے قدم قدم پر اسلام اور بانی اسلام کو نقصان پہنچایا ۔آپ ﷺ نے انہیں بھی کبھی کافر نہیں کہا کیونکہ حدیث میں آتا ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا کہ جو شخص اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے تم بھی اسے مسلمان کہوچنانچہ اس ضمن میں چند ایک احادیث پیش خدمت ہیں ۔

آنحضرت ﷺ نے فرمایا:

قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ : مَنْ صَلَّی صَلاَتَنَا وَاسْتَقْبَلَ قِبْلَتَنَا ، وَأَكَلَ ذَبِيحَتَنَا فَذَلِكَ المُسْلِمُ الَّذِي لَہُ ذِمَّةُ اللَّہِ وَذِمَّةُ رَسُولِہِ ، فَلاَ تُخْفِرُوا اللَّہَ فِي ذِمَّتِہِ

(صحیح البخاری جلد اوّل حدیث نمبر391باب نماز کے احکام و مسائل)

جس نے ہماری طرح نماز پڑھی اور ہماری طرح قبلہ کی طرف منھ کیااور ہمارا ذبیحہ کھایا تو وہ مسلمان ہے جس کے لئے اللہ اور اس کے رسول کی پناہ ہےپس تم اللہ کے ساتھ اس کی دی ہوئی پناہ میں خیانت نہ کرو۔

اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا:

قالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ اكْتُبُوا لِي مَنْ تَلَفَّظَ بِالْإِسْلَامِ مِنْ النَّاسِ                                                                                             (صحيح البخاري, كتاب الجہاد والسير)

حضرت محمدﷺ نے فرمایا کہ میرے لئے ایسے لوگوں کے نام لکھو جو زبان سے اپنے اسلام کا اقرار کرتےہوں ۔

پس جیسا کے ان احادیث صحیحہ سے واضح ہے کہ جو شخص بھی اپنے مسلمان ہونے کا زبان سے اقرار کرتا ہے اس کے بعد کسی شخص کو یہ حق حاصل نہیںکہ اسے کافر قرار دے اور جب اس نے اپنی زبان سے اسلام کا اقرار کر لیا اس کے بعد اس کے باطن کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے ۔جو شخص کسی ایسے انسان کو جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے کافر قرار دیتا ہے ایسے شخص کے لئے آنحضرت ﷺ نے فرمایا:

عَنْ أَبِي ذَرٍّ رَضِيَ اللَّہُ عَنْہُ أَنَّہُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَا يَرْمِي رَجُلٌ رَجُلًا بِالْفُسُوقِ وَلَا يَرْمِيہِ بِالْكُفْرِ إِلَّا ارْتَدَّتْ عَلَيْہِ إِنْ لَمْ يَكُنْ صَاحِبُہُ كَذَلِكَ

(صحيح البخاري, كتاب الأدب)

صحابی رسول ﷺ فرماتے ہیں کہ میں نے آنحضرت ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ کوئی شخص کسی دوسرے شخص پر فسق یا کفر کی تہمت نہ لگائے کیونکہ اگر وہ شخص خدا تعالیٰ کے نزدیک فاسق یا کافر نہیں تو کہنے والے پر یہ کلمہ لوٹے گا یعنی کہنے والا خدا کے نزدیک فاسق یا کافر ہوگا۔

پس جیسا کہ اس حدیث سے بھی واضح ہے کہ انسان کےباطن کا تعلق اللہ سے ہے او ر کسی دوسرے شخص کو اللہ تعالیٰ نے مختار نہیں بنایا کہ وہ دوسروں کے ایمان کا فیصلہ کرے ۔

کیا اسلام غیر مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے؟

جیسا کہ بیان ہو چکا ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے اسلام قبول کیا انہیں مسلمان کہا گیا اور جنہوں نے اسلام کا انکار کیا انہیں اسلام کا انکار کرنے والا یعنی کافر کہا گیا اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے اسلام قبول نہیں کیا  اس کے نتیجہ میںقرآن کریم یا محمد ﷺ نے ان کے ساتھ غیر مساوی یا امتیازی سلوک کرنے کا حکم فرمایا ؟ ہرگز نہیں۔ قرآ ن کریم اور تاریخ کا مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے کبھی بھی کسی غیر مسلم کے ساتھ غیر مساوی یا امتیازی سلوک کیا ہو جو لوگ تاریخ اسلام سے واقف ہیں ان کے نزدیک ایسے جھوٹے الزامات ہرگز قابل قبول نہیں ہو سکتے ۔اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں آنحضرت ﷺ کو رحمۃ للعالمین قرار دیا ہے اور آپ کی امت کامقصد بنی نوع انسان کی خدمت ٹھہرایاہے۔

مسلمان کی تعریف

الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ النَّاسُ مِنْ لِسَانِہِ وَيَدِہِ وَالْمُؤْمِنُ مَنْ أَمِنَہُ النَّاسُ عَلَی دِمَائِہِمْ وَأَمْوَالِہِمْ  (سنن النسائي, كتاب الإيمان وشرائعہ)

یعنی مسلمان وہ ہے جس کے صرف ہاتھ سے ہی نہیں بلکہ زبان سے بھی دوسرے لوگ(صرف مسلمان نہیں) محفوظ رہیں یعنی وہ کسی کو اپنی زبان سے بھی تکلیف نہ دے اور مومن وہ ہے جس سے لوگوں کا خون اور ان کا مال محفوظ رہے ۔

پس یہ ہے وہ اسلام جس کی حسین تعلیم بلا تفریق مذہب و ملت اور بلا امتیاز مسلم و غیر مسلم سب کے لئے یکساں ہے اور ’’محبت سب کے لئے اور نفرت کسی سے نہیں ‘‘کا درس ورق در ورق دہراتی ہے اور جگہ جگہ انصاف کرنے والوں کے ساتھ اللہ کی محبت اور ظلم و زیادتی کرنے والوں سے اللہ کی ناراضگی کا ذکر کرتی ہے۔جیسا کہ فرمایا :إِنَّ اللَّہَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ(سورۃالمائدة 43)

دشمن کافروں سے حسن سلوک کی تعلیم

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتاہے کہ:

يَا أَيُّہَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّہِ شُہَدَاءَ بِالْقِسْطِ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَی أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا ہُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَی وَاتَّقُوا اللَّہَ إِنَّ اللَّہَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ (المائدة 9)

 اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر مضبوطی سے نگرانی کرتے ہوئے انصاف کی تائید میں گواہ بن جاؤ اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہرگز اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو انصاف کرو یہ تقوی کے سب سے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرو یقیناً اللہ اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے جو تم کرتے ہو ۔

پس اس حسین تعلیم کی موجودگی میں جہاں دشمنوں کے ساتھ بھی انصاف کرنے کا حکم ہےکون ہے جو یہ اعتراض کر سکتا ہے کہ اسلام غیر مسلمانوں کے ساتھ پیار ، محبت اور امن کے ساتھ زندگی گزارنے سے منع کرتا ہے یا ان کے ساتھ ظلم کو جائز قرار دیتا ہے قرآن کی آیات اور محمدﷺ کی تمام زندگی ایسے شخص کو جھوٹا قرار دیتی ہے اور مطالبہ کرتی ہے کہ اگر تم سچے ہو تو اپنی دلیل لے کر آؤ۔آپ ﷺ نے غیر اقوام کے ساتھ جس مذہبی رواداری اور بھائی چارے کا سلوک فرمایا اس مقام پر اس کا مختصر ذکر کرنا خاکسار مناسب سمجھتا ہے ۔

یہودیوں کے ساتھ حسن سلوک:

یہودیوں کے مختلف قبائل مدینہ میں آباد تھے، نبی اکرم صلی اللہ عليہ وسلم کے مدینہ ہجرت فرمانے کے بعد، ابتداءً یہود غیر جانب داراور خاموش رہے لیکن اس کے بعد وہ اسلام اور نبی رحمت صلی اللہ عليہ وسلم اور مسلمانوں کے تئیں اپنی عداوت اور معاندانہ رویہ زیادہ دنوں تک نہ چھپا سکے۔ انہوں نے سرکارِ دوعالم صلی اللہ عليہ وسلم اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کی خفیہ سازشیں کیں، بغاوت کے منصوبے بنائے، آپ صلی اللہ عليہ وسلم کے کھانے میں زہر ملایا آپ صلی اللہ عليہ وسلم کو شہید کرنے کی تدبیریں سوچیں، اسلام اور مسلمانوں کو زَک پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا، اس کی ایک وجہ یہودیوں میں حسد، تنگ دلی، اورجمود وتعصب کا پایاجانا تھا۔ دوسرے

ان کے عقائد باطلہ، اخلاق رذیلہ اور گندی سرشت تھی۔ لیکن قربان جائیے رحمت ِ عالم صلی اللہ عليہ وسلم پر کہ آپ صلی اللہ عليہ وسلم نے ان کے ساتھ نہایت اعلیٰ اخلاق کامظاہرہ کیا۔

مدینہ منورہ تشریف لانے کے بعد سرکارِدوعالم صلی اللہ عليہ وسلم نے یہودیوں کے ساتھ ایک اہم معاہدہ کیا تاکہ مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان خوش گوار تعلقات قائم ہوں، اور دونوں ایک دوسرے کے ساتھ رواداری کا برتاؤ کریں اور مشکلات میں ایک دوسرے کی مدد کریں، معاہدہ کی چند دفعات یہ تھیں۔

– ۱  تمام یہودیوں کو شہریت کے وہی حقوق حاصل ہوں گے جو اسلام سے پہلے انھیں حاصل تھے۔

۲- مسلمان تمام لوگوں سے دوستانہ برتاؤ رکھیں گے۔

۳- اگر کوئی مسلمان کسی یثرب والے کے ہاتھ مارا جائے تو بہ شرط منظوری ورثاء قاتل سے خوں بہا لیا جائے گا۔

۴-  باشندگان مدینہ میں سے جو شخص کسی سنگین جرم کا مرتکب ہو اس کے اہل وعیال سے اس کی سزا کا کوئی تعلق نہ ہوگا۔

۵۔  موقع پیش آنے پر یہودی مسلمانوں کی مدد کریں گے، اور مسلمان یہودیوں کی ۔

۶- حلیفوں میں سے کوئی فریق اپنے حلیف کے ساتھ دروغ گوئی نہیں کرے گا۔

۷-  مظلوموں اور ستم رسیدہ شخص کی خواہ کسی قوم سے ہو مدد کی جائے گی۔

۸-  یہود پر جو بیرونی دشمن حملہ آور ہوگا تو مسلمانوں پر ان کی امداد لازمی ہوگی۔

۹-   یہود کو مذہبی آزادی حاصل ہوگی۔

۱۰-  مسلمانوں میں سے جو شخص ظلم یا زیادتی کرے گا تو مسلمان اسے سزادیں گے۔

۱۱- بنی عوف کے یہود ی مسلمانوں میں ہی شمار ہوں گے۔

۱۲- یہودیوں اور مسلمانوں میں جس وقت کوئی قضیہ پیش آئیگا تو اس کا فیصلہ رسول اللہ کریں گے۔

۱۳- یہ عہد نامہ کبھی کسی ظالم یاخاطی کی جانب داری نہیں کریگا۔

(سیرة ابن ہشام: ص:۵۰۱- تا- ۵۰۴)

آپ نے ملاحظہ فرمایا اس معاہدے میں کس فیاضی اور انصاف کے ساتھ یہودیوں کو مساویانہ حقوق دیے گئے ہیں۔سرکاردوعالم صلی اللہ عليہ وسلم اس معاہدے کے مطابق یہودیوں کے ساتھ برتاؤ کرتے رہے لیکن یہودیوں نے اس معاہدے کی پاس داری نہیں کی، مسلمانوں کے خلاف مشرکین مکہ کی مدد کی اور اسلام اور مسلمانوں کے ہمیشہ درپے آزار رہے۔

اسلامی حکومت میں غیر مسلم رعایا(ذمیوں) کے حقوق

اسلام تمام افراد بشر اور طبقات انسانی کے لیے رحمت ورافت کا پیکر بن کر آیا تھا، اس لیے اس نے غیر مسلم اقوام اور رعایا کے ساتھ مثالی رحم وکرم، مساوات وہمدردی، اور رواداری کا معاملہ کیا ہے اور ان کو انسانی تاریخ میں پہلی بار وہ سماجی اور قومی حقوق عطا کیے جو کسی مذہب یا تمدن والوں نے دوسرے مذہب وتمدن والوں کو کبھی نہیں دیئے۔ جوغیر مسلم اسلامی ریاست میں قیام پذیر ہوں اسلام نے ان کی جان، مال، عزت وآبرو اور مذہبی آزادی کے تحفظ کی ضمانت دی ہے۔اور حکمرانوں کو پابند کیا ہے کہ ان کے ساتھ مسلمانوں کے مساوی سلوک کیا جائے۔ ان غیر مسلم رعایا(ذمیوں) کے بارے میں اسلامی تصوریہ ہے کہ وہ اللہ اور رسول کی پناہ میں ہیں۔ا س بناء پر اسلامی قانون ہے کہ جو غیر مسلم، مسلمانوں کی ذمہ داری میں ہیں ان پر کوئی ظلم ہوتو اس کی مدافعت مسلمانوں پر ایسی ہی لازم ہے جیسی خود مسلمانوں پر ظلم ہوتو اس کا دفع کرنا ضروری ہے۔(مبسوط سرخسی:۱/۸۵)

اگر کوئی مسلمان ذمی پرظلم کرتا ہے تو یہ مسلمان پر ظلم کرنے سے زیادہ سخت ہے

(درمختار مع ردالمحتار:۵/۳۹۶)

جو حقوق مسلمانوں کو حاصل ہیں وہی حقوق ذمیوں کو بھی حاصل ہوں گے، نیز جو واجبات مسلمانوں پر ہیں وہی واجبات ذمی پر بھی ہیں۔ ذمیوں کا خون مسلمانوں کے خون کی طرح محفوظ ہے اور ان کے مال ہمارے مال کی طرح محفوظ ہے۔(درمختار کتاب الجہاد)

اسلام نے طے کیا ہے کہ جو شخص اس غیرمسلم کو قتل کرے گا جس سے معاہدہ ہوچکا ہے وہ جنت کی بوسے بھی محروم رہے گا جب کہ جنت کی خوشبو چالیس سال کی مسافت تک پہنچتی ہے۔(حدیث شریف:ابن کثیر:۲/۲۸۹)

ذمیوں کے اموال اور املاک کی حفاظت بھی اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے۔

سرکار دوعالم صلی اللہ عليہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے

سنو جو کسی معاہد (غیرمسلم) پر ظلم کرے، یا اس کے حقوق میں کمی کرے گا،یا طاقت سے زیادہ اس کو مکلف کرے گا یا اس کی کوئی چیز اس کی مرضی کے بغیر لے گا تو میں قیامت کے دن اس کی طرف سے دعوے دار بنوں گا۔(مشکاة شریف:ص:۳۵۴)

غیرمسلم رعایا کو اتنی آزادی حاصل تھی کہ ان کے تعلیمی ادارے آزاد ہوتے اوران کے شخصی قوانین کے لیے عدالتیں بھی آزاد رہیں۔

ذمیوں کو جو حقوق اسلام میں عطا کیے گئے ہیں وہ معاہدئہ اہل نجران کے ضمن میں تفصیل سے بیان کئے جاچکے ہیں۔

  الغرض قرآن کریم اور حضرت محمدﷺ کی زندگی کا مطالعہ کرنے سےکوئی ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی جہاں آپﷺ نے مذہبی تفریق کی بناء پر کسی سے غیر مساوی یا امتیازی سلوک کیا ہو جبکہ قرآن کریم کی تعلیم اور تاریخ ایسےواقعات سے بھری پڑی ہے جہاں آپ نے بلا تفریق مذہب و ملت و نسل بنی نوع انسان کے ساتھ پیار ،محبت ،امن و انصاف اور بھائی چارے کی مثالیں قائم کیں۔چند ایک مثالیں قارئین کی خدمت میں پیش کی جاتی ہیں

چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ

ایک یہودی لڑکا بیمار پڑ گیاجو آپ ﷺ کی خدمت کیا کرتا تھا تو آپ ﷺ اس کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے ۔(صحیح بخاری حدیث نمبر5657)

اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہودو نصاریٰ کی دعوت قبول فرمایا کرتے تھے ۔ایک یہودی عورت نے آپ کی دعوت کی اور کھانے میں زہر ملا دیا ۔

پھر روایت میں آتا ہے کہ عبد اللہ بن عبّاس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’صحابہ اپنے مشرک رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرنا نا پسند کرتے تھے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا اور یہ آیت اتری   لَيْسَ عَلَيْكَ ھُدٰیھُمْ وَلٰكِنَّ اللہَ يَہْدِيْ مَنْ يَّشَآءُ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَيْرٍ فَلِاَنْفُسِكُمْ وَمَا تُنْفِقُوْنَ اِلَّا ابْتِغَآءَ وَجْہِ اللہِ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَيْرٍ يُّوَفَّ اِلَيْكُمْ وَاَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ (البقرۃ: ۲۷۲)

یعنی لوگوں کو راہ راست پر لانا آپ کی ذمہ داری نہیں بلکہ اللہ ہی جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور جو تم خرچ کرتے ہو وہ اللہ کی رضا کے حصول کے لیے کرتے ہو۔اور جو بھی مال و دولت تم خرچ کرو گے اس کا پورا پورا اجر تمہیں دیا جائے گا اور تمہاری حق تلفی نہیں کی جائے گی۔‘‘اور انہیں رخصت دی گئی۔( تفسیر ابن کثیر )

اسی طرح مسلمان ان کے ساتھ دنیاداری و خرید و فروخت بھی کرتے تھے

چنانچہ روایت میں آتا ہے کہ جب آپ ﷺ کی وفات ہوئی تو آپ ﷺ کی زرہ ایک یہودی کے پاس رہن تھی ۔

(صحیح بخاری کتاب البیوع)

پھر ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ نجران کے عیسائی آپ ﷺ کی خدمت میں تشریف لائے اور کافی دیرتک مسجد نبوی میں بیٹھ کر عیسائیت کے حق میں باتیں کرتے رہے جب عیسائیوں کی عبادت کا وقت آیا تو وہ اٹھ کر باہر جانے لگے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ آپ مسجد میں ہی اپنے طریق کے مطابق عبادت کر لیں چنانچہ انہوں نے مسجد نبوی میں ہی اپنے طریق کے مطابق عبادت کی ۔

(طبقات ابن سعد جلد اول صفحہ 357)

پھر آپ ﷺ نے حکم عام فرمایا کہ جب بھی تمہارے پاس کسی قوم کا معزز شخص آئے تو اس کی عزت و تکریم کرو۔

پس ان تمام آیات قرآنیہ اور احادیث سے یہ بات روز روشن کی طرح ثابت ہے کہ آپ ﷺ نے کبھی مذہبی اختلاف کی بناء پر کسی سے غیر مساوی یا امتیازی سلوک نہیں فرمایا بلکہ غیر مسلمانوں کے ساتھ بھی آپ کے ہر قسم کے تعلقات تھے ۔

کیا اسلام تمام کافروںسے جنگ کرنے کا حکم دیتا ہے ؟

اس تمام گفتگو کے بعد سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر اسلام تمام مذہب کے ساتھ پیار محبت ،امن اور بھائی چارے کی تعلیم دیتا ہے اور کسی غیر مسلم کے ساتھ غیر مساوی سلوک نہیں کرتا تو اسلام میں جنگیں کیونکر لڑی گئیں ؟تو اس کا جواب یہ ہے کہ اسلام نے کبھی بھی اپنی ترویج کے لئے تلوار کا سہارا نہیں لیا بلکہ اسلام کی تعلیم صاف ہے کہ

لَا إِكْرَاہَ فِي الدِّينِ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ  (البقرة 257)

دین میں کوئی جبر نہیں یقیناہدایت گمراہی سے کھل کر نمایاں ہوچکی۔

ان آیات میں اسلام کی تعلیم روز روشن کی طرح صاف ہے کہ دین میں کوئی جبرنہیں ہے ۔اب رہا یہ سوال کہ اسلام میں جنگیں کیونکر لڑی گئیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ جب حضرت محمدﷺ نے نبوت کا دعویٰ کیا او ر لوگوں کو اسلام کی تعلیم دی تب مکّہ کے لوگوں نے آپ ﷺ پر طرح طرح سے ظلم و ستم کئےکوئی ایسا ظلم نہ تھا جوکفار ومشرکین نے مکہ مکرمہ میں سرکاردوعالم صلی اللہ عليہ وسلم اور صحابہٴ کرام کے ساتھ روا نہ رکھا۔ آپ صلی اللہ عليہ وسلم کو جادوگر، شاعر اور کاہن کہاگیا، آپ صلی اللہ عليہ وسلم کو جسمانی اور ذہنی اذیتیں دی گئیں، آپ صلی اللہ عليہ وسلم پر پتھروں اور سنگریزوں کی بارش کی گئی، آپ صلی اللہ عليہ وسلم کے راستے میں کانٹے بچھائے گئے، آپ صلی اللہ عليہ وسلم کا گلا گھونٹا گیا، نماز کی حالت میں آپ صلی اللہ عليہ وسلم پر اونٹ کی اوجھڑی رکھ دی گئی، آپ صلی اللہ عليہ وسلم کے قتل کے منصوبے تیار کیے گئے۔ تین سال تک شعب ابی طالب میں آپ صلی اللہ عليہ وسلم کومحصور رکھا گیا۔جس میں ببول کے پتے کھاکر گزارہ کرنے کی نوبت آئی، طائف میں آپ کو سخت اذیت پہنچائی گئی، لوگوں نے آپ صلی اللہ عليہ وسلم کو گالیاں دیں اور اتنا زدوکوب کیا کہ آپ صلی اللہ عليہ وسلم کے نعلین مبارک خون سے لبریز ہوگئے۔ آپ  صلی اللہ عليہ وسلم کو مکہ مکرمہ سے ہجرت کرنے پر مجبور کیاگیا۔ آپ صلی اللہ عليہ وسلم مدینہ تشریف لے گئے تو وہاں بھی سکون واطمینان سے رہنے نہیں دیاگیا۔ اور طرح طرح کی یورشیں جاری رکھی گئیں، یہودیوں کے ساتھ مل کر رحمت ِ عالم  صلی اللہ عليہ وسلم اور مسلمانوں کے خلاف منصوبہ بند مہم چھیڑ دی گئی اور اسلام اور بانیٔ اسلام کو ختم کرنے کی ناکام کوششیں کی گئیں تب اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو اپنے دفاع کرنے کا حکم دیا اور فرمایا

اذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّہُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّہَ عَلَی نَصْرِہِمْ لَقَدِيرٌ۔الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِہِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ إِلَّا أَنْ يَقُولُوا رَبُّنَا اللَّہُ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّہِ النَّاسَ بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ لَہُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيہَا اسْمُ اللَّہِ كَثِيرًا وَلَيَنْصُرَنَّ اللَّہُ مَنْ يَنْصُرُہُ إِنَّ اللَّہَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ(الحج 40-41)

اُن لوگوں کو جن کے خلاف قتال کیا جا رہا ہے (قتال کی) اجازت دی جاتی ہے کیونکہ ان پر ظلم کئے گئے اور یقیناً اللہ  اُنکی مدد پر پوری قدرت رکھتا ہے۔(یعنی) وہ لوگ جنہیں ان کے گھروں سے ناحق نکالا گیا محض اس بنا پر کہ وہ کہتے تھے کہ اللہ ہمارا ربّ ہے اور اگر اللہ کی طرف سے لوگوں کا دفاع اُن میں سے بعض کو بعض دوسروں سے بِھڑا کر نہ کیا جاتا تو راہب خانے منہدم کر دیئے جاتے اور گرجے بھی اور یہود کے معابد بھی اور مساجد بھی جن میں بکثرت اللہ کا نام لیا جاتا ہے اور یقیناً اللہ ضرور اُس کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کرتا ہے یقیناً اللہ بہت طاقتور (اور) کامل غلبہ والا ہے  ۔

ان آیات سے واضح ہے کہ مسلمانوں کو تلوار اٹھانے کی اجازت اس لئے دی گئی کیونکہ ان پر ظلم کیا گیا اور ان کو ان کے گھروں سے نکالا گیا اور اگر اللہ تعالیٰ یہ اجازت نہ دیتا تو یہ فساد اس درجہ بڑھ جاتا کہ پھر نہ کوئی یہودیوں کی عبادت گاہ قائم رہتی اور نہ کوئی گرجاگھر اور نہ کوئی مسجد اور نہ ہی کوئی اور عبادت گاہ ۔اور یہ اجازت صرف ان کے خلاف دی گئی جنہوں نے مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے اور اسلام کو مٹانے کی ناکام کوشش کی نہ کہ تمام غیر مسلمانوں کے خلاف جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

لَایَنْہٰکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ فِیْ الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوْکُمْ مِنْ دِیَارِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْہُمْ وَتُقْسِطُوْا اِلَیْہِمْ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْن

(الممتحنہ:۸)

اللہ تمہیں ان سے منع نہیں کرتا ،جنہوں نے تم سے دین کے معاملہ میں قتال نہیں کیا اور نہ تمہیں بے وطن کیا، کہ تم ان سے نیکی کرواور انکے ساتھ انصاف کے ساتھ پیش آؤ۔ یقیناً اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔

مندرجہ بالا آیات میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر بیان فرمایا ہے کہ ان لوگوں سے جنگ کرو جنہوں نے تم پر زیادتی کی تمہیں گھروں سے نکالا اور جن لوگوں نے تمہارے ساتھ دین کے معاملہ میں کوئی زیادتی نہیں کی اللہ تعالیٰ تمہیں ہرگز منع نہیں کرتا کہ تم ان کے ساتھ بھلائی اور حسن سلوک کرواور جن لوگوں سے تم نے معاہدے کئے ہیں ان کے ساتھ معاہدوں کو پورا کرو۔

اور دوسری طرف کفار مکہ کے ظلم اور فتنہ و فساد کا ذکر کرتے ہوئےاللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:

كَيْفَ وَإِنْ يَظْہَرُوا عَلَيْكُمْ لَا يَرْقُبُوا فِيكُمْ إِلًّا وَلَا ذِمَّةً يُرْضُونَكُمْ بِأَفْوَاہِہِمْ وَتَأْبَی قُلُوبُہُمْ وَأَكْثَرُہُمْ فَاسِقُونَ (التوبة 8)

کیسے (ان کا عہد قابلِ اعتماد) ہو سکتا ہے جبکہ حال یہ ہے کہ اگر وہ تم پر غالب آ جائیں تو تمہارے متعلق نہ کوئی عہد خاطر میں لاتے ہیں اور نہ کوئی ذمہ داری (بس) وہ تمہیں اپنے منہ کی باتوں سے خوش کر دیتے ہیں جبکہ ان کے دل منکر ہوتے ہیں اور ان میں سے اکثر بدکردار لوگ ہیں۔پھر فرمایا:

لَا يَرْقُبُونَ فِي مُؤْمِنٍ إِلًّا وَلَا ذِمَّةً وَأُولَئِكَ ھُمُ الْمُعْتَدُونَ (التوبة 10)

 وہ کسی مومن کے معاملہ میں نہ کسی عہد کا پاس کرتے ہیں اور نہ کسی ذمہ داری کا اور یہی وہ لوگ ہیں جو حد سے گزرنے والے ہیں۔

ان آیات میں واضح طورپر بیان کیا گیا ہے کہ کس طرح کفار مکہ جب بھی موقع میسر آتا تو مسلمانوں کو نقصان پہچانے کے لئے اپنے عہدوں کو توڑ دیتے تھے اور کوئی بھی موقعہ اسلام اور مسلمانوں کو نیست و نابود کرنے کا ہاتھ سے نہ جانے دیتے۔

مگر اس کے باوجود اسلام کی اس حسین تعلیم کی نظیر دنیا دکھلانے سےتا قیامت قاصر رہے گی چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے ۔

وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُہَا فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُہُ عَلَی اللَّہِ إِنَّہُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ (الشوری41)

یعنی بدی کا بدلہ، کی جانے والی بدی کے برابر ہوتا ہے پس جو کوئی معاف کرے بشرطیکہ وہ اصلاح کرنے والاہو تو اس کا اجر اللہ پر ہے یقیناً وہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا ۔

پھر فرمایا

يَا أَيُّہَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّہِ شُہَدَاءَ بِالْقِسْطِ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَی أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا ہُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَی وَاتَّقُوا اللَّہَ إِنَّ اللَّہَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ (المائدة 9)

 اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر مضبوطی سے نگرانی کرتے ہوئے انصاف کی تائید میں گواہ بن جاؤ اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہرگز اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو انصاف کرو یہ تقوی کے سب سے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرو یقیناً اللہ اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے جو تم کرتے ہو ۔

پھر فرمایا

وَإِنْ أَحَدٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ اسْتَجَارَكَ فَأَجِرْہُ حَتَّی يَسْمَعَ كَلَامَ اللَّہِ ثُمَّ أَبْلِغْہُ مَأْمَنَہُ ذَلِكَ بِأَنَّہُمْ قَوْمٌ لَا يَعْلَمُونَ(التوبة 6)

اور مشرکوں میں سے اگر کوئی تجھ سے پناہ مانگے تو اسے پناہ دے یہاں تک کہ وہ کلامِ الہی سن لے پھر اسے اس کی محفوظ جگہ تک پہنچا دے یہ (رعایت) اس لئے ہے کہ وہ ایک ایسی قوم ہیں جو علم نہیں رکھتے  ۔

پس یہ وہ اسلام کی حسین تعلیم جو ہر مسلمان کا فخر ہے جہاں دشمنوں کے ساتھ بھی انصاف کرنے کا حکم ہے جہاں یہ حکم ہے کہ اگر تمہارے ساتھ کوئی برائی کی گئی ہے تو اس کا صرف اتنا ہی بدلہ لینا ہے جتنی برائی کی گئی ہے اور اگر اس کو بھی معاف کر دو تو اس کا اجر اللہ تمہیں دے گا اور اگر کوئی مشرک بھی تم سے پناہ مانگے تو تم ضرور اس کو پناہ دو اور اسے اس کی محفوظ جگہ تک پہنچاو کیونکہ وہ یہ سب مخالفت اس لئے کر رہے کیونکہ ان کو علم نہیں ہے ۔

مسلمانوں کے ساتھ جنگ کرنے والوں کے سلسلہ میں اسلامی ہدایات:

مکہ مکرمہ میں مسلمانوں پر کفار مظالم کے پہاڑ توڑرہے تھے،ان کا جینا دوبھر کردیا تھا ہر طرح سے ا ن کو پریشان کیا جارہا تھا، مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے حبشہ اور پھر مدینہ منورہ چلے جانے کے بعد بھی سکون میسر نہ آیا، اور کفار یہود اور منافقین کی مشترکہ سازشوں کا شکارر ہے۔ مدینہ کو تاخت وتاراج کرنے اور مسلمانوں کو ملیا میٹ کرنے کے ارادے سے ایک لشکر جرار نے مدینہ پر چڑھائی کردی اس انتہائی مجبوری کی حالت میں اس کے سوا کوئی چارہ کار نہ رہ گیا تھا کہ تلوار کا مقابلہ تلوار سے کیاجائے چناں چہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو لڑائی کی اجازت دی اور فرمایا:حکم ہوا ان لوگوں کو جن سے کافر لڑتے ہیں،اس واسطہ کہ ان پر ظلم ہوا۔اور اللہ ان کی مدد کرنے پر قادر ہے وہ لوگ، جن کو نکالاگیا ان کے گھروں سے اور دعویٰ کچھ نہیں سوائے اس کے،کہ وہ کہتے ہیں ہمارا رب اللہ ہے۔(سورہ حج:آیت:۳۹)

جہاد کی اجازت ظلم وستم کے مقابلہ کے لیے دی گئی اور برسرپیکار لوگوں کے سلسلہ میں بے نظیر رواداری اور حسن اخلاق کی تعلیم بھی دی گئی جو کسی بھی دوسرے مذہب میں نہیں ملتی چناں چہ اس سلسلہ میں ہدایات درج ذیل ہیں:

(۱)جنگ میں خود پیش قدمی سے روکا(بقرہ:۱۹۱)

(۲)ظلم وزیادتی کی ممانعت کی (بقرہ:۱۹۰)

(۳)جنگ کی بس اس وقت تک اجازت دی جب تک فتنہ وفساد فرونہ ہوجائے(حج:۱۳۹)

(۴)دشمن کے قاصدوں کو امن دیا (ہدایہ ونہایہ:۳/۴۷)

(۵)دشمن کی عورتوں، بچوں،معذوروں کو مارنے سے منع کیا(تاریخ ابن خلدون:۲/۴۸۹)

(۶)سرسبز کھیتوں اور پھل دار درختوں کے کاٹنے کی ممانعت فرمائی(تاریخ ابن خلدون:۲/۴۸۹)

(۷)عبادت گاہوں کو ڈھانے اور تارک الدنیا عابدوں اور مذہبی رہنماؤں کو قتل کرنے سے روکا (ایضاً)

(۸)اسیران جنگ کو تکلیف پہنچانے کی ممانعت فرمائی۔

(۹)دشمن اپنے کو کم زور دیکھ کر صلح کی درخواست کرے تو اسے قبول کرنے کی ہدایت فرمائی۔

(۱۰)پناہ میں آنے والے غیر مسلم کو امن دینے اور عافیت سے رکھنے کی تاکید فرمائی۔ (سورئہ توبہ:۳۶)

(۱۱)محض مال غنیمت کے لیے جہاد کرنے سے روکا۔(ابوداؤد:۱/۳۴۸)

(۱۲)لوٹ کے مال کو حرام قرار دیا۔ (تاریخ ابن خلدون)

(۱۳)معاہدہ کرنے والے ذمیوں کی جان ومال کی پوری حفاظت کا مسلمانوں کو پابند فرمایا۔

(دین رحمت:۲۳۹،بحوالہ فتوح البلدان)

علاوہ ازیں ان تمام نا قابل فراموش ظلم و ستم کے باوجود جو کفار مکہ نے محمدﷺ اور آ پ ﷺ کے صحابہ ؓ پرکئے فتح مکہ کے موقع پرجب بباعث اپنے افعال رزیلہ کے کفار مکہ کو موت اپنے سامنے نظر آرہی تھی ان کو خطرہ تھا کہ آج ان کی ایذا رسانیوں کا انتقام لیا جائے گا،سرکاردوعالم صلی اللہ عليہ وسلم نے ان کو مخاطب کرکے فرمایا: اے قریشیو! تم کو کیا توقع ہے،اس وقت میں تمہارے ساتھ کیا کروں گا؟ انھوں نے جواب دیا: ہم اچھی ہی امید رکھتے ہیں، آپ کریم النفس اور شریف بھائی ہیں اور کریم اور شریف بھائی کے بیٹے ہیں چنانچہ اس مجسم رحمت نےارشاد فرمایا:

”میں تم سے وہی کہتا ہوں جو یوسف عليہ السلام نے اپنے بھائیوں سے کہا تھا، آج تم پر کوئی الزام نہیں؛ جاؤ تم سب آزاد ہو“(زاد المعارج:۱/۴۲۴)

کیا انسانی تاریخ اس رحم وکرم کی کوئی مثال پیش کرسکتی ہے؟

پس حاصل کلام یہ کہ اسلام ایک امن کا مذہب ہے اور دنیا میں امن کے قیام کا خواہا ںہے ۔اسلام اور بانی اسلام نے بلا تفریق مذہب و ملت ونسل ہر انسان کے ساتھ پیار ،محبت اور اخوت کی تعلیم دی اور نہ صرف تعلیم دی بلکہ اس کا عملی نمونہ بھی دکھایاجو آج تمام نوع انسان کے لئے قابل تقلید نمونہ ہے اور یہی مطلب ہے لفظ اسلام کا یعنی ’’امن و سلامتی‘‘

ازالۂ اوہام

وَاقْتُلُوہُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوہُمْ وَأَخْرِجُوہُمْ مِنْ حَيْثُ أَخْرَجُوكُمْ وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ وَلَا تُقَاتِلُوہُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتَّی يُقَاتِلُوكُمْ فِيہِ فَإِنْ قَاتَلُوكُمْ فَاقْتُلُوہُمْ كَذَلِكَ جَزَاءُ الْكَافِرِينَ (192) فَإِنِ انْتَہَوْا فَإِنَّ اللَّہَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (193) وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّی لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّہِ فَإِنِ انْتَہَوْا فَلَا عُدْوَانَ إِلَّا عَلَی الظَّالِمِينَ(البقرة 192-194)

 ترجمہ ۔ اور (دورانِ قتال) انہیں قتل کرو جہاں کہیں بھی تم انہیں پاؤ اور انہیں وہاں سے نکال دو جہاں سے تمہیں انہوں نے نکالا تھا اور فتنہ قتل سے زیادہ سنگین ہوتا ہے اور ان سے مسجد حرام کے پاس قتال نہ کرو یہاں تک کہ وہ تم سے وہاں قتال کریں پس اگر وہ تم سے قتال کریں تو پھر تم اُن کو قتل کرو کافروں کی ایسی ہی جزا ہوتی ہے  (192) پس اگر وہ باز آ جائیں تو یقیناً اللہ بہت مغفرت کرنے والا (اور) باربار رحم کرنے والا ہے  (193) اور ان سے قتال کرتے رہو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین (اختیار کرنا) اللہ کی خاطر ہو جائے پس اگر وہ باز آ جائیں تو (زیادتی کرنے والے) ظالموں کے سوا کسی پر زیادتی نہیں کرنی ۔

بعض لوگ مندرجہ بالا آیت کو پیش کرکے یہ اعتراض کرتے ہیںکہ گویا اس آیت میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو یہ حکم دیتا ہے کہ جہاں کہیں بھی کفار تمہیں ملیں ان کو قتل کر دو ۔

واضح ہو کہ اس آیت میں بھی اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں سے لڑنے کا حکم دیا ہے جو مسلمانوں پر زیادتی کرتے تھے اور جنگ میں پہل کرتے تھے چنانچہ اس آیت میں بھی مسلمانوں کو اپنا دفاع کرنے کی اجازت دی گئی ہے چنانچہ جب ہم مذکورہ بالا آیت اور اس سے پہلی آیت پر غور کرتے ہیں تو یہ مضمون واضح ہو جاتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّہِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا إِنَّ اللَّہَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِين(البقرة 191)

ترجمہ۔اور اللہ کی راہ میں ان سے قتال کرو جو تم سے قتال کرتے ہیں اور زیادتی نہ کرو یقیناً اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا  ۔

پس ہر دو آیات سے جو نتائج برآمد ہوتے ہیں وہ یہ ہیں کہ

۱) لڑائی صرف ان لوگوں سے جائز ہے جو مسلمانوں کے مقابل میں ہتھیار اٹھا چکے ہوں جیسا کہ فرمایا وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّہِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُم یعنی اللہ کی راہ میں ان سے قتال کرو جو تم سے قتال کرتے ہیں۔

۲)علاوہ ایسے لوگوں کے جنہوں نے مسلمانوں سے لڑائی کی اور کسی کے ساتھ لڑائی کرنے سے منع فرمایا ۔

۳) وَأَخْرِجُوہُمْ مِنْ حَيْثُ أَخْرَجُوكُمْ یعنی اور انہیں وہاں سے نکال دو جہاں سے تمہیں انہوں نے نکالا تھا ۔اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ یہاں ان لوگوں سے لڑائی کا ذکر ہے جنہوں نے مسلمانوں پر ظلم کیا اور انہیں ان کے گھروں سے نکالا۔

 ۴) وَلَا تَعْتَدُوا إِنَّ اللَّہَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِين اور زیادتی نہ کرو یقیناً اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔یعنی لڑائی کو اس حد تک محدود رکھنا چاہئے جس حد تک دشمن محدود رکھتا ہے اور اسے وسیع کرنے کی کوشش

نہیں کرنی چاہئےکیونکہ اللہ تعالیٰ حد سے بڑھنے والوںکو پسند نہیں کرتا۔

5) پھر فرمایا وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ یعنی فتنہ قتل سے زیادہ سنگین ہوتا ہے۔اس جگہ فتنہ سے مراد وہی دور آزمائش ہے جس سے مسلمان گزر رہے تھے اور جس کا اس سے پہلے ان الفاظ میں ذکر آچکا ہے کہ کفار محض مذہبی اختلاف کی بناء پر مسلمانوں کو مارتے اور ان کے گھروں سے نکالتے ہیں ۔فرماتا ہے کہ لوگوں کو دین کی وجہ سے تکلیف دینااور انہیں ان کے گھروں سے نکالنا بہت ہولناک جرم ہے ۔اور یہ بھی کہ فتنہ یعنی مومنوں کو اس وجہ سے تکلیف دینا کہ وہ اپنے دین کو چھوڑ دیں قتل سے بڑھ کر ہے۔

6) وَلَا تُقَاتِلُوہُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتَّی يُقَاتِلُوكُمْ فِيہِ فَإِنْ قَاتَلُوكُمْ فَاقْتُلُوہُمْ كَذَلِكَ جَزَاءُ الْكَافِرِينَ ترجمہ اور ان سے مسجد حرام کے پاس قتال نہ کرو یہاں تک کہ وہ تم سے وہاں قتال کریں پس اگر وہ تم سے قتال کریں تو پھر تم اُن کو قتل کرو کافروں کی ایسی ہی جزا ہوتی ہے۔

اس آیت میں یہ ہدایت دی گئی ہے کہ اس امر کو مدنظر رکھنا چاہئیےکہ دوران جنگ بھی  مذہبی عبادتوں اور مذہبی فرائض کی ادائیگی میںروکیں پیدا نہ ہوںلیکن اگر دشمن خود مذہبی عبادتگاہوں کو جنگ کا ذریعہ بنائے تو پھر مجبوری ہے۔اس آیت میں اس طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ عبادتگاہوں کے ارد گرد بھی لڑائی نہیں ہونی چاہئیےکجا یہ کہ عبادتگاہوں پر براہ راست حملہ کیا جائے یا ان کو مسمار کیا جائے۔یا ان کو توڑا جائے ہاں اگر دشمن خود عبادتگاہوں کولڑائی کا قلعہ بنا لے تو پھر ان کے نقصان کی ذمہ داری اس پر ہے مسلمانوں پر نہیں ۔

7) وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّی لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّہِ فَإِنِ انْتَہَوْا فَلَا عُدْوَانَ إِلَّا عَلَی الظَّالِمِينَ یعنی ان سے قتال کرتے رہو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین (اختیار کرنا) اللہ کی خاطر ہو جائےپس اگر وہ باز آ جائیں تو (زیادتی کرنے والے) ظالموں کے سوا کسی پر زیادتی نہیں کرنی

مطلب یہ کہ چونکہ کفار تم سے لڑائی شروع کر چکے ہیں اس لئے تم بھی اس وقت تک لڑائی جاری رکھوجب تک دین میں دخل اندازی کرنے کے طریق کو وہ چھوڑ نہ دیں اور یہ تسلیم نہ کر لیں کہ دین کا معاملہ صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے ۔اور اس میں جبر کرنا کسی انسان کے لئے جائز نہیں اگر وہ یہ طریق اختیار کر لیں اور دین میں دخل اندازی سے باز آجائیں تو فوراً لڑائی بند کر دوکیونکہ سزا صرف ظالموں کو دی جاتی ہےاور اگر وہ اس قسم کے ظلم سے باز آجائیں تو پھر ان سے لڑائی کرنا جائز نہیں ہو سکتا ۔

خلاصہ کلام یہ کہ مذکورہ بالا آیت بھی مسلمانوں کو اپنا دفاع کرنےاورمذہبی آزادی کو قائم کرنے کا حکم دیتی ہے اور ہر قسم کی ظلم و زیادتی سے منع فرماتی ہے ۔

کیا موجودہ زمانہ میں جہاد باسیف جائز ہے ؟

ہم اوپرقرآن اور احادیث کی روشنی میں اس بات کا مفصل طور پر ذکر کر چکے ہیں کہ اسلام نے کبھی بھی اپنی ترویج یا ترقی کے لئے تلوار کا ہرگز سہارا نہیں لیا بلکہ مسلمانوں کو جنگ کرنے کی جو اجازت دی گئی وہ بطور دفاع اور آزادی رائے کو قائم کرنے کے لئے دی گئی اور یہ حکم اس وقت کے لئے تھا جب تلوار کے زور سے اسلام کو ختم کرنے کی ناکام کوشش کی گئی اور مذہبی آزادی پر پابندیاں قائم کی گئی لیکن موجودہ زمانہ میں ہر انسان کو اپنی رائے کا اظہار کرنے کا مکمل حق ہے اسی طرح ہر انسان اپنے مذہب کی تبلیغ بلا خوف و خطر کر سکتا ہے ۔اگر آج کسی شخص پرمذہبی بناء پر کوئی ظلم کیا جاتا ہے تو اس کے لئے ملکی و بین الاقوامی قوانین موجود ہیں جن کا سہارا لیکر ظالم کے خلاف قانونی چاراجوئی کی جا سکتی ہے لھٰذا موجودہ زمانہ میں جہاد باسیف کی ہرگز اجازت نہیں کیونکہ اول کوئی قوم مذہبی اختلاف کی بناء پر اسلام کو مٹانے کی کوشش نہیں کرتی دوسرا یہ کہ اسلام ملکی قانون کی خلاف ورزی کرنے سے سختی سے منع فرماتا ہے اور کسی بھی قسم کی بغاوت کو ناپسند کرتا ہے ۔تیسرا یہ کہ آنحضرت ﷺ نے خود یہ پیشگوئی فرمائی تھی کہ ایک زمانہ ایسا بھی آئیگا جب مذہبی جنگوں کا خاتمہ ہو جائیگا اور ہر شخص کو اپنے مذہب کی تبلیغ اور تشہیر کی مکمل آزادی ہوگی ۔چنانچہ آنحضرت ﷺنے فرمایا:

عن النَّبِيِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ قَالَ يُوشِكُ مَنْ عَاشَ مِنْكُمْ أَنْ يَلْقَی عِيسَی ابْنَ مَرْيَمَ إِمَامًا مَہْدِيًّا وَحَكَمًا عَدْلًا فَيَكْسِرُ الصَّلِيبَ وَيَقْتُلُ الْخِنْزِيرَ وَيَضَعُ الْجِزْيَةَ وَتَضَعُ الْحَرْبُ أَوْزَارَہَا

(مسند أحمد, كتاب باقي مسند المكثرين)

ترجمہ۔حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے فرمایا کہ ممکن ہے کہ تم میں سے جو شخص زندہ ہو وہ عیسیٰ ابن مریم سے ملے جو امام مہدی ہوں گے اور حکم و عدل ہوں گے وہ صلیب کو توڑیں گے اور خنزیر کو قتل کریں گے ۔جزیہ ختم کر دیا جائیگا اور جنگ اپنے ہتھیار ڈال دے گی یعنی مذہبی جنگوں کا خاتمہ ہو جائیگا۔

جیسا کہ مندرجہ بالا حدیث سے واضح ہے کہ آنحضرت ﷺ نے یہ پیشگوئی فرمائی تھی کہ ایک وقت آئیگا جب مذہبی آزادی کے لئے جنگ کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی اور مذہبی جنگوں کا خاتمہ ہو جائیگا اور وہ زمانہ ایک مصلح یعنی عیسیٰ ابن مریم اور امام مہدی کا زمانہ ہوگا چنانچہ موجودہ زمانہ میں مدعی ٔ مسیح و مہدی حضرت مرزا غلام احمدقادیانی  ؑ نے یہی تعلیم بیان فرمائی ہے چنانچہ آپ اپنےمنظور کلام میں فرماتے ہیں :

اب چھوڑ دو جہاد کا اے دوستو خیال

دیں کیلئے حرام ہے اب جنگ اور قتال

کیوں بھولتے ہو تم یضع الحرب کی خبر

کیا یہ نہیں بخاری میں دیکھو تو کھول کر

فرما چکا ہے سید کونین مصطفیٰ

عیسیٰ مسیح جنگوں کا کر دے گا التوا

یہ حکم سن کے بھی جو لڑائی کو جائے گا

وہ کافروں سے سخت ہزیمت اٹھائے گا

اک معجزہ کے طور سے یہ پیشگوئی ہے

کافی ہے سوچنے کو اگر اہل کوئی ہے

اب آگیا مسیح جو دیں کا امام ہے

دیں کی تمام جنگوں کا اب اختتام ہے

(تحفہ گولڑویہ۔ روحانی خزائن جلد۱۷۔ صفحہ ۷۷۔۷۸)

پس ثابت ہوا کہ موجودہ زمانہ میں بباعث مفقود ہونے شرائط جہاد باسیف کے کسی کے لئے جائز نہیں کہ جہاد باسیف کا کسی کو حکم دے یا اس پر عمل کرے ۔

ایک اہم گزارش

تمام قارئین کی خدمت میں ایک اہم گزارش ہے کہ اگر آپ کسی بھی مذہب کے بارے میںمعلومات حاصل کرناچاہتے ہیں تو اس مذہب کی مقدس کتابوں کا مطالعہ کریںاور پھر اس مذہب کے ماننے والوں کو ان تعلیمات کی روشنی میں جج کریں کہ آیا وہ لوگ اس تعلیم پر عمل کر رہے ہیں یا نہیں نہ یہ کہ کچھ لوگوں کے برے اعمال دیکھ کر ان کےمذہب کو جج کریں کہ ان کا مذہب ان کو یہ سب کرنے کی اجازت دیتا ہے۔کیونکہ ممکن ہے کہ وہ لوگ اپنے مذہب کی تعلیم پر عمل پیرا ہی نہ ہوں یا وہ اپنے ذاتی مفاد کی خاطر اپنے مذہب کا غلط استعمال کر رہے ہوں ۔آج یہی وجہ ہے جو اکثر لوگوں کی ٹھوکر کا موجب بن رہی ہے ۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں انصاف پر قائم رہتے ہوئےہر مذہب کواس کی مقدس تعلیمات کی روشنی میں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین

تازہ ترین

متعلقہ پوسٹس

امام وقت کی آواز

حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزفرماتے ہيں: لوگ عورتوں کے حقوق ادا نہيں کرتے، وارثت کے حقوق۔ اور ان کا شرعي حصہ نہيں ديتے اب بھي يہ بات سامنے آتي ہے برصغير ميں اور جگہوں پر بھي ہوگي کہ عورتوں کو ان کا شرعي حصہ نہيں ديا جاتا۔ وراثث ميں ان کو جو اُن کا حق بنتاہے نہيں ملتا۔ اور يہ بات نظام کے سامنے تب آتي ہے جب بعض عورتيں وصيت کرتي ہيں تو لکھ ديتي ہيں مجھے وراثت ميں اتني جائيداد تو ملي تھي ليکن مَيں نے اپنے بھائي کو يا بھائيوں کو دے دي اور ا س وقت ميرے پاس کچھ نہيں ہے۔ اب اگر آپ گہرائي ميں جا کر ديکھيں،جب بھي جائزہ ليا گيا تو پتہ يہي لگتا ہے کہ بھائي نے يا بھائيوں نے حصہ نہيں ديا اور اپني عزت کي خاطر يہ بيان دے د يا کہ ہم نے دے دي ہے۔ (خطبات مسرور جلد1 صفحہ نمبر115-116))

کلام الامام المھدی ؑ

حضرت اقدس مسيح موعود عليہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہيں کہ: اىک شخص اپنى منکوحہ سے مہر بخشوانا چاہتا تھا مگر وہ عورت کہتى تھى تو

انفاخ النبی ﷺ

حضرت جابر بن عبداللہؓ بيان کرتے ہيں کہ حضرت سعد بن ربيع کي بيوي اپني دونوں بيٹيوں کے ہمراہ آنحضرتؐ کے پاس آئيں اور عرض کيا کہ يا رسول اللہؐ ! يہ دونوں سعد بن ربيعؓ کي بيٹياں ہيں جو آپؐ کے ساتھ لڑتے ہوئے احد کے دن شہيد ہو گئے تھے۔ اور ان کے چچا نے ان دونوں کا مال لے ليا ہے اور ان کے ليے مال نہيں چھوڑا اور ان دونوں کا نکاح بھي نہيں ہو سکتا جب تک ان کے پاس مال نہ ہو۔ آپؐ نے فرمايا اللہ تعاليٰ اس کے بارے ميں فيصلہ فرمائے گا۔ اس پر ميراث کے احکام پر مشتمل آيت نازل ہوئي۔ پھر رسول اللہؐ نے چچا کو بلوايا اور فرمايا کہ سعد کي بيٹيوں کو سعد کے مال کا تيسرا حصہ دو اور ان دونوں کي والدہ کو آٹھواں حصہ دو اور جو بچ جائے وہ تمہارا ہے                                                                                                                            (سنن الترمذي، کتاب الفرائض، باب ما جاء في ميراث البنات)