کورونا وائرس سے جنگ میں ایک مسلمان کا کردار

محترم کے طارق احمد صاحب سیکریٹری پریس اینڈ میڈیا قادیان

کوروناوائرس سے نمٹنے کے لئے حکومتی قوانین کی پابندی اس وقت مسلمانوں کی نہ صرف معاشرتی بلکہ مذہبی ذمہ داری ہے۔

اسلام فطری مذہب ہے جو دعا کے ساتھ ساتھ احتیاطی تدابیر بھی اپنانے کی تلقین کرتا ہے۔

بانئی اسلامﷺ نے آج سے 1400سال قبل ہمیںوبائی بیماری کے وقت معاشرتی دوری کی تعلیم دی ہے۔

مسلمانوں کی بدقسمتی

آج جبکہ پوری دنیا کروناوائرس کی وبائی بیماری کے چیلنج سے نمٹنے کے لئے محنت کر رہی ہےاورمختلف سرکاری اور نجی ادارے اس موقعہ پر مختلف اقدامات اور احتیاطی تدابیر اپنا رہے ہیں اورانڈیا کی مرکزی حکومت اور صوبائی حکومتیں بھی اس آفت سے نمٹنے کے لئے مختلف منصوبے بنارہے ہیں اور ڈاکٹرز، نرسز،پولیس اور مختلف سرکاری محکمہ اس آفت سے دنیا کو بچانے کے لئےبے لوث محنت کر رہے ہیں۔ وہاں دوسری طرف انڈیا میں بعض حال کے واقعات کے نتیجہ میں اس آفت کے موقعہ پر اسلام کوبھی نشانہ بنایا جارہا ہے اور اسلام کو بھی اس بیماری کے پھیلانے کے حوالہ سے مورد الزام ٹھہرایا جارہا ہے۔

حکام کی اطاعت ایک مسلمان کا دینی فریضہ ہے

احمدیہ مسلم جماعت بھارت سب سے پہلے مرکزی اور صوبائی حکومتوں سے اپنے شکرگذاری کے جذبات کا اظہار کرتی ہے کہ اس موقعہ پر اس وبائی بیماری کو کنٹرول کرنے کے لئے انہوں نے مختلف احتیاطی اقدامات لوگوں کی بہتری اور بھلائی کے لئے اپنائے ہیں اور لوگوں کو اپنی گائڈ لائنز دیتے ہوئے اس بیماری سے نمٹنے کے لئے مختلف ہدایتیں بھی حکومت نے دی ہیں۔ حکومت کی ان تمام ہدایات کی پابندی کرنی ایک مسلمان کا مذہبی فریضہ ہے۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں حکومت کی ان ہدایتوں کی پابندی کرنے کے نتیجہ میں نہ صرف ایک مسلمان اپنے آپ کو اس بیماری سے محفوظ رکھ سکتا ہے بلکہ یہ ایک مسلمان کی معاشرتی ذمہ داری ہےاور بنی نوع انسان سے ہمدری کا اظہار بھی ہے جو دراصل اسلامی تعلیمات کا مغز ہے۔

جماعت احمدیہ مسلمہ کی بنیاد اور قیام کا مقصد

ایک ایسے زمانہ میں جب مسلمان اسلامی تعلیمات کو بھلا بیٹھے تھے، احمدیہ مسلم جماعت بھارت کی بنیاد حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام نے سن 1889ء میں اسلامی تعلیمات کی حقیقی روح سے دنیا کو آگاہ کرنے کے لئے قائم فرمائی تھی۔ یہ جماعت امن و سلامتی، انصاف اور اعلیٰ اسلامی اقدار کے قیام کے لئے قائم کی گئی۔ بانی جماعت احمدیہ نے اس جماعت کی بنیاد کے دو ہی مقاصد بیان فرمائے ہیں۔ یعنی لوگوں کو خدا تعالیٰ کی شناخت کراتے ہوئے اس خدا سے زندہ تعلق پیدا کرنے کا راستہ دنیا کو دکھانا اور بنی نوع انسان سے مکمل ہمدردی کرناہے جوکہ دراصل اسلامی تعلیمات کاخلاصہ ہے۔ آج بفضلہ تعالیٰ احمدیہ مسلم جماعت بھارت دنیا میں حقیقی اسلام کی نمائندگی کرنے کی توفیق پارہی ہے۔

وبائی بیماری سے نمٹنے کے لئے اسلامی احتیاطی تدابیر

اسلام نے ہمیشہ بیماریوں سے نمٹنے کے لئے جہاں دعاؤں پر زور دینے کی تلقین فرمائی ہے وہاں احتیاطی تدابیراپنانے کی بھی نصیحت فرمائی ہے کیونکہ دعا کے ساتھ عمل ہی کارگر ثابت ہوسکتا ہے۔ بانئی اسلام حضرت محمدﷺ نے وبائی بیماریوں کے موقعہ کے لئے بھی تعلیمات عطا فرمائی ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اگر کسی زمین میں وبائی بیماری کے پھیلنے کی تمہیں اطلاع ملے تو تم اس زمین میں داخل مت ہونااور اگر تم اس وقت اسی زمین میں موجود ہو تو پھر اس زمین سے باہر نہ نکلنا(صحیح بخاری)۔ حکومتوں کی طرف سے جو سفر پر پابندیاں اور Qurantineکی ہدایت دی جارہی ہیں وہ دراصل اسی تعلیم کے عین مطابق ہے۔

اسلام وبائی بیماری کے وقت معاشرتی دوری کی تلقین کرتا ہے۔

حضرت نبی اکرمﷺ نےبیمار لوگوں کے لئے ایک دوسرے سے دوری بنائے رکھنے کی بھی تلقین فرمائی ہے۔ ایک انسان جس کو جذام کی بیماری تھی جب اس نے اسلام میں شامل ہونے کے لئے بیعت(ہاتھ پکڑ کر عقیدت کا اظہار) کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ اس کی بیعت قبول ہوگئی ہے۔ لیکن اس انسان کو واپس اپنے گھر چلے جانا چاہئے(سنن ابن ماجہ)۔ ایک اور موقعہ پر آپﷺ نے فرمایا کہ ایک بیمار انسان کو صحتمند انسان سے نہیں ملنا چاہئے جس کے نتیجہ میں صحتمند انسان بھی اس بیماری سے متاثر ہوسکے۔ یہ تعلیمات صرف انسانوں کے لئے نہیں بلکہ آپؐ نے جانوروں کے لئے بھی یہی تعلیم دی ہے(صحیح بخاری)۔ آج QurantineاورSocial Distancingکے حوالہ سے قوانین کی پابندی کو بعض مسلمان بھی مشکل خیال کررہے ہیں جبکہ آنحضورﷺ نے اس کو ایک مذہبی ذمہ داری قرار دیا ہے۔

اسلام اور حفظان صحت

اسلام اپنے آپ کو صاف ستھرا رکھنے کی تلقین کرتا ہے اور صفائی کو ایمان کا حصہ قرار دیتا ہے۔ پانچ وقت وضو میں انسان ہاتھ اور ناک کی صفائی کرتا ہے۔ حضرت نبی اکرمﷺ کا یہ اسوہ ہے کہ جب آپ چھینکتے تھے تو اپنے چہرے کو ڈھانک لیتے تھے۔ یہ اعمال ان دنوں اس وبائی بیماری سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے لئے ضروری میڈیکل تقاضے بن گئے ہیں۔

اسلام دعا کے ساتھ ساتھ میڈیکل علاج کی بھی نصیحت کرتا ہے۔

اسلام نے ہمیشہ بیماری سے شفایابی کے لئے دعا کے ساتھ ساتھ ادویات کے استعمال کی بھی تلقین کی ہے۔ حضرت محمدﷺ نے فرمایا ہے کہ ہر بیماری کی کوئی دوا ہے۔ اگر دعا کے ساتھ وہ دوا استعمال کی جائے تو اللہ تعالیٰ اپنے اذن سے شفایابی عطا کرتا ہے۔ (صحیح مسلم)

اسلام اوروباء کے موقعہ پر ہمدردی خلق

اسلام ایسے موقعوں پربلا تفریق مذہب و ملت خدمت خلق کے کاموں کی طرف بھی مسلمان کو توجہ دلاتا ہےاور متاثرین کی امداد کا حکم دیتا ہے۔ حضرت عمرؓ نے جب ایک ایسے علاقہ سے گذرے جہاں پر کچھ عیسائی جذام کی بیماری سے متاثر تھے تو آپؓ نے فوری طور پر ان کی مالی امداد فرمائی اور انہیں میڈیکل سہولیات فراہم کئے جانے کا حکم فرمایا۔

جماعت احمدیہ مسلمہ کی طرف سے اسلام کی حقیقی نمائندگی

یہ ہیں اسلام کی اعلیٰ تعلیمات جو انسانی فطرت کے عین مطابق ہیں۔ وبائی بیماریوں میں جو احتیاطیں اپنانے کی ضرورت ہے اور جن میڈیکل تقاضوں کی پابندی ضروری ہے اسلام نے اور حضرت محمدﷺ نے بڑی وضاحت کے ساتھ وہ بیان کرفرمادی ہیں۔

لیکن آج کل بعض مسلمان چونکہ اسلام کی ان حقیقی تعلیمات کو بھلا بیٹھے ہیں اس لئے ان کو وبائی بیماری کے موقعہ پر اپنی معاشرتی اور مذہبی ذمہ داریوں کا احساس نہیں ہے۔

 وبائی بیماری کے پس منظر میں امام جماعت احمدیہ عالمگیر کی نصیحت

احمدیہ مسلم جماعت بھارت اسلام کی تعلیمات کے مطابق عمل کرنے والی جماعت ہے۔ حکومتی قوانین کی پابندی اس جماعت کی امتیازی خصوصیت ہے۔ امام جماعت احمدیہ عالمگیر حضرت مرزا مسرور احمد صاحب نے 27؍مارچ 2020ء کو اپنے ایک خصوصی پیغام میں دنیا کے 213ممالک میں بسنے والے احمدیوں کو ہدایت فرمائی کہ جو بھی ان کے ملک میں حکومتی قوانین ہیں اس کی پابندی کرنی ہر احمدی کا فرض ہے۔ آپ نے تلقین فرمائی کہ احمدی مسلمان اپنی پنجوقتہ نمازیں اور جمعہ کی نماز اپنے گھروں میں اپنے اہل و عیال کے ساتھ ادا کریں۔ اور حکومتی قوانین کے مطابق اپنے گھر میں ہی رہیں اور ان ایام میں اپنے علم کو بڑھانے کوشش کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ امام جماعت احمدیہ عالمگیر نے بہت زیادہ دعاؤں کی بھی تلقین فرمائی ہے۔

لاک ڈاؤن کی پابندی میں احمدی افراد صف اول میں ہیں

قادیان جو احمدیہ مسلم جماعت بھارت کا ہیڈ کوارٹر ہے یہاں پر بھی حکومتی قوانین کی مکمل پابندی کی جارہی ہے۔ احمدی مسلمان اپنے گھروں میں ہی نمازیں ادا کر رہے ہیں۔ اس ضلع کے اعلیٰ پولیس افسر نے میڈیا میں یہ بیان دیا ہے کہ’’قادیان پورے ضلع میں لاک ڈاؤن کے احکامات کی پابندی میں اول نمبر پر ہے‘‘۔ نہ صرف قادیان بلکہ پورے انڈیا میں ہی احمدی مسلمانوں نے اپنے حکام کی ہدایات کی پاسداری کی ہے۔ کولگام کشمیر کے ایک اعلیٰ پولیس افسر نے ایک احمدی کے جنازے کے موقعہ پر یہ تاثر پیش کیا ’’کہ اس جماعت نے لاک ڈاؤن کے قوانین کی مکمل پابندی مکمل نظم و ضبط کے ساتھ کی ہے۔ اس جماعت کے افراد کو میری طرف سے کوئی ہدایت نہیں دی گئی بلکہ جملہ نظم و ضبط کے انتظامات انہوں نے خود کئے ہیں۔‘‘

جماعت احمدیہ بھارت کی رفاہی خدمات

ملک بھر میں احمدیہ مسلم جماعت کے نوجوانوں کی تنظیم ’’خدام الاحمدیہ‘‘ اور جماعت احمدیہ کا رفاہی ادارہ Humanity Firstمستحقین کی بھرپور رنگ میں امداد کر رہے ہیں۔

ابتداء سے ہی جب اس وبائی بیماری کا انڈیا میں زیادہ اثر بھی نہیں تھا تب سے امام جماعت احمدیہ عالمگیر کی ہدایت کی روشنی میں بھارت بھر میں ہومیوپتھی کی Preventiveادویات کی تقسیم کی گئی ہے۔ کم و بیش پچاس ہزار لوگوں تک یہ ادویات پہنچائی گئیں۔ انڈیا کے 15سے زیادہ مقامات میں محکمہ صحت کے ساتھ مل کر جماعت احمدیہ نے لوگوں میںاس بیماری سے متعلق Awarenessپیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ دیہاتی علاقوں میں2000سے زیادہ لوگوں کو جماعت احمدیہ نے ماسکس اور ہینڈ Sanitizersمفت میں فراہم کئے ہیں۔ لاک ڈاؤن کے بعد بھی جماعت احمدیہ کے Volunteers نے انڈیا بھر میں متعلقہ محکمہ کی اجازت سے 15ہزار سے زیادہ مستحق فیملیز کو دوہفتوں کا ضروری راشن پہنچایا ہے اور 40ہزار سے زیادہ غریبوں کو کھانا کھلایا گیا ہے۔

آج ضرورت اس بات کی ہے کہ کوروناوائرس کی آفت سے نمٹنے کے لئے ہم سب خدا سے زیادہ سے زیادہ دعا کریں اور حکومت کی طرف سے جو گائڈ لائنز ہمیں دی گئی ہیں اس کی مکمل پابندی کرتے ہوئے ہم سب کو یکجٹ ہوکر اس وبائی بیمار سے نمٹنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ دنیا کو اس آفت سے نجات عطا کرے۔ آمین

تازہ ترین

متعلقہ پوسٹس

امام وقت کی آواز

حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزفرماتے ہيں: لوگ عورتوں کے حقوق ادا نہيں کرتے، وارثت کے حقوق۔ اور ان کا شرعي حصہ نہيں ديتے اب بھي يہ بات سامنے آتي ہے برصغير ميں اور جگہوں پر بھي ہوگي کہ عورتوں کو ان کا شرعي حصہ نہيں ديا جاتا۔ وراثث ميں ان کو جو اُن کا حق بنتاہے نہيں ملتا۔ اور يہ بات نظام کے سامنے تب آتي ہے جب بعض عورتيں وصيت کرتي ہيں تو لکھ ديتي ہيں مجھے وراثت ميں اتني جائيداد تو ملي تھي ليکن مَيں نے اپنے بھائي کو يا بھائيوں کو دے دي اور ا س وقت ميرے پاس کچھ نہيں ہے۔ اب اگر آپ گہرائي ميں جا کر ديکھيں،جب بھي جائزہ ليا گيا تو پتہ يہي لگتا ہے کہ بھائي نے يا بھائيوں نے حصہ نہيں ديا اور اپني عزت کي خاطر يہ بيان دے د يا کہ ہم نے دے دي ہے۔ (خطبات مسرور جلد1 صفحہ نمبر115-116))

کلام الامام المھدی ؑ

حضرت اقدس مسيح موعود عليہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہيں کہ: اىک شخص اپنى منکوحہ سے مہر بخشوانا چاہتا تھا مگر وہ عورت کہتى تھى تو اپنى نصف نىکىاں مجھے دىدے

انفاخ النبی ﷺ

حضرت جابر بن عبداللہؓ بيان کرتے ہيں کہ حضرت سعد بن ربيع کي بيوي اپني دونوں بيٹيوں کے ہمراہ آنحضرتؐ کے پاس آئيں اور عرض کيا کہ يا رسول اللہؐ ! يہ دونوں سعد بن ربيعؓ کي بيٹياں ہيں جو آپؐ کے ساتھ لڑتے ہوئے احد کے دن شہيد ہو گئے تھے۔ اور ان کے چچا نے ان دونوں کا مال لے ليا ہے اور ان کے ليے مال نہيں چھوڑا اور ان دونوں کا نکاح بھي نہيں ہو سکتا جب تک ان کے پاس مال نہ ہو۔ آپؐ نے فرمايا اللہ تعاليٰ اس کے بارے ميں فيصلہ فرمائے گا۔ اس پر ميراث کے احکام پر مشتمل آيت نازل ہوئي۔ پھر رسول اللہؐ نے چچا کو بلوايا اور فرمايا کہ سعد کي بيٹيوں کو سعد کے مال کا تيسرا حصہ دو اور ان دونوں کي والدہ کو آٹھواں حصہ دو اور جو بچ جائے وہ تمہارا ہے                                                                                                                            (سنن الترمذي، کتاب الفرائض، باب ما جاء في ميراث البنات)