آجکل اکثر و بیشتر ڈپریشن یا ٹینشن کا لفظ ہر کس و ناکس کے منہ پر جاری ہے۔ بے اطمینانی اور بے سکونی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ انسان اپنے خالق حقیقی کو بھول بیٹھا ہے۔
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے اپنے ذکر کو دلوں کے اطمینان کا ذریعہ بتا یا ہے۔مگر لوگ عام طور پر یہ شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ اللہ کا ذکر کرکے بھی دل بے چین و مضطرب رہتا ہے۔وہ صبح و شام تسبیحات پڑھتے ہیں، مگر پھر بھی زندگی بے چینی و انتشار میں گزرتی ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ اس آیت میں اطمینان سے مراد سکون کی وہ کیفیت نہیں ہے جو کسی نشے کو اختیار کرنے کے بعد انسان پر طاری ہوجاتی ہے۔اور جس کے بعد انسان دنیا و مافیہا کے ہر غم سے بے نیاز ہوجاتا ہے۔ بلکہ یہاں اطمینان سے مراد وہ ذہنی کیفیت ہے جس میں انسان کو یہ یقین ہوتا ہے کہ جس ہستی پر وہ ایمان لایا ہے، جس کو اس نے اپنا رب اور اپنا معبود ماناہے، و ہی در حقیقت خالق و مالک ہے۔اور یقین اللہ کے جس ذکر سے پیدا ہوتا ہے وہ محض تسبیح پر انگلیاں پھیرنے کا عمل نہیں بلکہ اس کی یاد میں جینے کا نام ہے۔یہ محض کچھ اذکار کو زبان سے ادا کرنے کا عمل نہیں ،رب کی محبت اور اس کے ڈرمیں زندگی گزارنے کا نام ہے۔
اس بات کو اس طرح سمجھ سکتے ہیں کہ اگر کسی شخص کی ملک کے صدر سے براہِ راست دوستی ہوجائے تو پھر ملک بھرمیں کوئی سرکاری محکمہ اسے تنگ نہیں کرسکتا۔ کہیں اس کا کام رک نہیں سکتا ۔جب ایک فانی انسان کا یہ حال ہے تو جن لوگوں کوا للہ تعالیٰ اپنا دوست قرار دیدے،ان کے معاملات کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔وہ ایمان و تقویٰ کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں اور اللہ انہیں ہر خوف و حزن سے محفوظ رکھتا ہے۔ وہ اللہ کی یاد میں جیتے ہیں اور اللہ ان کے دلوں کو اطمینان سے بھردیتا ہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ کے نیک بندوں پر تکالیف بھی آتی ہیں، بلکہ اکثر انہی پر آیا کرتی ہیں توپھر یہ لوگ کس طرح خوف و حزن سے محفوظ ہوئے۔اس کا جواب یہ ہے کہ حزن و خوف دل کی ایک کیفیت کا نام ہے۔جو لوگ اللہ کی یاد میں جیتے ہیں، ان کے اردگرد وقتی طور پر پریشان کن حالات پیدا ہوسکتے ہیں، مگر ان کے قلب پر اطمینان کی وہ کیفیت طاری رہتی ہے جس سے انسان ہمیشہ پرسکون رہتا ہے۔
اس کا سب سے اچھا نمونہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ہے۔ آپ کو اپنی زندگی میں متعدد مسائل کا سامنا کرنا پڑا اور ہجرت کے موقع پر تو خون کے پیاسے لوگ آپ کو تلاش کرتے ہوئے غار ثور تک آپہنچے ۔ آپ کے ساتھ سوائے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے اور کوئی نہ تھا۔ مگرآپ اس موقع پر ذرہ بھر بھی خوفزدہ نہ ہوئے بلکہ جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کی طرف سے فکرمند ہوئے تو آپ نے ان کو اس طرح تسلی دی کہ لا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا
یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے امتحان کی تیاری میں مصروف کوئی قابل طالب علم رات بھر جاگتا اور نیند کی راحت سے محروم رہتا ہے ۔ مگر اسے یہ تکلیف اس لیے گوارا ہوتی ہے کہ وہ آنے والے دنوں میں اس کا بہترین نتیجہ دیکھے گا۔
اکثر لوگ کچھ عرصے سے پریشان ہوتے ہیں۔ خاندانی مسائل، کام کا دباؤ، امتحان کےپریشر کی وجہ سے لوگ ناخوش ہوتے ہیں۔ ہو سکتا ہے یہ لوگ مایوس ہو کر یہ سمجھنے لگیں کہ ایسے مسائل سے چھٹکارا ممکن نہیں ہے یا پھر کوئی بھی ان کی مدد نہیں کر سکتا۔ایسے میں کبھی دھتکارے جانا، امتحان میں فیل ہو جانا، کام کا یا مالی دباؤ آخری تنکا ثابت ہو سکتا ہے۔ڈپریشن ایک ذہنی بیماری ہے جس کے باعث لوگ خودکشی کی جانب مائل ہو جاتے ہیں۔
یہ ایک حقیت ہے کہ اللہ کی یاد میں بڑا سکون ہے۔ نہ اس شخص کے لیے جسے عام حالات میں اللہ یاد رہے نہ آخرت بلکہ اس کی زندگی کا مقصود دنیا کی لذتیں ہوں۔ بلکہ اس شخص کے لیے جو ایمان و تقوی کی کیفیات میں جیتا ہو۔ اطہر احمد شمیم