امام وقت کی آواز – جون ۲۰۲۰

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

’’حضرت محمد مصطفی ؐکو اللہ تعالیٰ نے اپنی خالص توحید کے قیام کے لئے دنیا میں مبعوث فرمایا تھا۔ اور بچپن سے ہی اللہ تعالیٰ نے اپنی جناب سے ایسے انتظامات فرما دئیے کہ آپؐ کے دل کو صاف، پاک اور مصفّٰی بنا دیا۔ بچپن سے ہی اللہ تعالیٰ نے آپؐ کے اندر اپنی محبت اور شرک سے نفرت کا بیج بو دیا۔ بلکہ پیدائش سے پہلے ہی آپؐ کی والدہ کو اُس نور کی خبر دے دی جس نے تمام دنیا میں پھیلنا تھا۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ یہ رؤیا جو حضرت آمنہ نے دیکھا تھا، کس طرح سچ ثابت ہوا۔ اللہ تعالیٰ کی مکمل شریعت آپؐ پر اپنے وقت پر نازل ہوئی۔ اور وہ نور دنیامیں ہر طرف پھیلا۔ خدائے واحد کی محبت کا ایک جوش تھا جس نے آپؐ کی راتوں کی نیند اور دن کا چین و سکون چھین لیا تھا۔ اگر کوئی تڑپ تھی تو صرف ایک کہ کس طرح دنیا ایک خدا کی عبادت کرنے لگ جائے، اپنے پیدا کرنے والے خدا کو پہچاننے لگ جائے۔ اس پیغام کو پہنچانے کے لئے آپؐ کو تکلیفیں بھی برداشت کرنا پڑیں، سختیاں بھی جھیلنی پڑیں۔ لیکن یہ سختیاں، یہ تکلیفیں آپؐ کو ایک خدا کی عبادت اور خدائے واحد کا پیغام پہنچانے سے نہ روک سکیں۔ یہ خدائے واحد کے عبادت گزار بنانے کا کام جو آپؐ کے سپرد خداتعالیٰ نے کیا تھا وہ آپؐ پر اللہ تعالیٰ کے احکامات اترنے کے بعد تو آپؐ نے انجام دینا ہی تھا لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا آپؐ کا دل بچپن سے ہی شرک سے پاک اور ایک خدا کے آگے جھکنے والا بن چکا تھا۔ خدا نے خود بچپن سے ہی اس دل کو اپنے لئے خالص کر لیا تھا۔ اگر کبھی بچپن میں اپنے بڑوں کے کسی دباؤ کے تحت، اس زمانہ کے کسی مشرکانہ تہوار میں جانا پڑا تو خداتعالیٰ نے خود ہی اس سے روکنے کے سامان پیدا فرما دئیے، خود ہی آپؐ کی حفاظت کے سامان پیدا فرما دئیے۔‘‘                       

(خطبہ جمعہ فرمودہ 4فروری 2005ء)

تازہ ترین

متعلقہ پوسٹس

امام وقت کی آواز

حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزفرماتے ہيں: لوگ عورتوں کے حقوق ادا نہيں کرتے، وارثت کے حقوق۔ اور ان کا شرعي حصہ نہيں ديتے اب بھي يہ بات سامنے آتي ہے برصغير ميں اور جگہوں پر بھي ہوگي کہ عورتوں کو ان کا شرعي حصہ نہيں ديا جاتا۔ وراثث ميں ان کو جو اُن کا حق بنتاہے نہيں ملتا۔ اور يہ بات نظام کے سامنے تب آتي ہے جب بعض عورتيں وصيت کرتي ہيں تو لکھ ديتي ہيں مجھے وراثت ميں اتني جائيداد تو ملي تھي ليکن مَيں نے اپنے بھائي کو يا بھائيوں کو دے دي اور ا س وقت ميرے پاس کچھ نہيں ہے۔ اب اگر آپ گہرائي ميں جا کر ديکھيں،جب بھي جائزہ ليا گيا تو پتہ يہي لگتا ہے کہ بھائي نے يا بھائيوں نے حصہ نہيں ديا اور اپني عزت کي خاطر يہ بيان دے د يا کہ ہم نے دے دي ہے۔ (خطبات مسرور جلد1 صفحہ نمبر115-116))

کلام الامام المھدی ؑ

حضرت اقدس مسيح موعود عليہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہيں کہ: اىک شخص اپنى منکوحہ سے مہر بخشوانا چاہتا تھا مگر وہ عورت کہتى تھى تو اپنى نصف نىکىاں مجھے دىدے

انفاخ النبی ﷺ

حضرت جابر بن عبداللہؓ بيان کرتے ہيں کہ حضرت سعد بن ربيع کي بيوي اپني دونوں بيٹيوں کے ہمراہ آنحضرتؐ کے پاس آئيں اور عرض کيا کہ يا رسول اللہؐ ! يہ دونوں سعد بن ربيعؓ کي بيٹياں ہيں جو آپؐ کے ساتھ لڑتے ہوئے احد کے دن شہيد ہو گئے تھے۔ اور ان کے چچا نے ان دونوں کا مال لے ليا ہے اور ان کے ليے مال نہيں چھوڑا اور ان دونوں کا نکاح بھي نہيں ہو سکتا جب تک ان کے پاس مال نہ ہو۔ آپؐ نے فرمايا اللہ تعاليٰ اس کے بارے ميں فيصلہ فرمائے گا۔ اس پر ميراث کے احکام پر مشتمل آيت نازل ہوئي۔ پھر رسول اللہؐ نے چچا کو بلوايا اور فرمايا کہ سعد کي بيٹيوں کو سعد کے مال کا تيسرا حصہ دو اور ان دونوں کي والدہ کو آٹھواں حصہ دو اور جو بچ جائے وہ تمہارا ہے                                                                                                                            (سنن الترمذي، کتاب الفرائض، باب ما جاء في ميراث البنات)