پاک محمد ﷺ (اداریہ – نومبر ۲۰۲۰)

محمد ہی نام اور محمد ہی کام

علیک الصلوٰۃ علیک السلام

 محمد (ﷺ )کے معنی غایت درجہ تعریف کیا گیا کے ہیں ۔آپ ﷺ واقعی اسم بامسمّیٰ تھے۔ملک عرب میں بعثت سے قبل بھی امین وصدیق کے لقب سے مشہور تھے ۔نبوت کے خلعت سے سرفراز ہونے کے بعد اگر چہ مخالفین نے آپ کی مخالفت میں کوئی کسر اٹھانہ رکھی تھی تاہم آپﷺ کی صداقت اوردیانت  کو دیکھتے ہوئے باوجود آپ کی مخالفت اوراہانت کرنے کےمخالفین  اپنی امانتیں آپ کے پاس رکھوایا کرتے تھے۔معاشرے کےمظلوم اور کمزور لوگوں کے لئے آپ ایک بہت بڑا سہارا تھے ۔آپ ﷺ نے اپنے جانی دشمنوں اصحاب و اقرباء کے قاتلین  اور سخت جنگی جرائم کےمرتکب لوگوں کے لئے معافی کا عام اعلان کیا۔ اپنی ذاتی اہانت اور مذمت کے لئے آپ نے کبھی کسی سے انتقام نہیں لیا بلکہ ہمیشہ عفو درگزرسے کام لیتے رہے۔منافقین کے سردارعبد اللہ بن ابی بن سلول نے آپ کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے نعوذ باللہ آپ کو ذلیل ترین اور خود کو معزز ترین قرار دیاتھا۔اس ہرزہ سرائی کا صلہ رحمت کے مجسمے  نےاس طرح دیا کہ اسکا جنازہ ادافرمایا اور کفن کے لئے اپنا کرتہ اسے عطا کیا ۔اپنے متبعین کو جو آپ ﷺ کے ایک اشارے پر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرتے تھے صبر کی تعلیم دیتے رہے اور یہی فرماتے رہے کہ تمام انبیاء کے ساتھ ہنسی ٹھٹھاکیا جاتارہاہے ۔لیکن اللہ تعالیٰ استہزاء کرنے والوں سے خود نپٹے گا۔آپﷺ یہی تعلیم دیتے رہے کہ جاہلوں سے اعراض کیا جائے اور مخالفین کی زبان درازی کو برداشت کیاجائے ۔اور جو سبّ شتم پر کمر بستہ ہی رہتے تھے اور ہجو اور تشبیب سے کسی طرح باز نہ آتے تھے تو آپﷺ نے اپنے درباری شاعر حضرت حسان بن ثابت ؓ کو انکا جواب دینے کو فرمایا تھا ۔اس طرح ایک intellectual response  کی آپﷺ نے ترغیب دلا ئی اور اسکی بنیاد ڈالی ۔آج کے دور میں جب کہ آپﷺ کی ہتک اور کسرشان کے نت نئے طریقے اپنا ئے جارہے ہیں مسلمانوں کو بائکاٹ اور تشدد کے بجائے دلیل کے میدان میں آکر آپ ﷺ کی صداقت کو پیش کرنا چاہے اور آپ کے حسین اسوہ کو دنیا کے سامنے پیش کرنے سے ہی لوگ اسلام کے قریب آسکتے ہیں ۔قریش مکہ جب آپﷺ کو مذمم (جس کی مذمت کی گئی ہو ) کہہ کر پکارتے تو آپ فرماتے کہ اللہ تعالیٰ نے میرا نام محمدرکھا ہے۔ (جس کی بے حد تعریف کی گئی ہو ) یوں آپ نے اپنے صحابہ کو درس صبر کے ساتھ ساتھ یہ تعلیم حکمت بھی دی کہ سورج پر تھوکا ہوا اپنے منہ کو ہی آتاہے۔آپ ﷺ کی شان بہت بلند و بالاہے۔آپ کو مقام محمود عطا ہواہے۔آپ تمام جہانوں کے لئے رحمت ہیں ۔اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم نبی رحمت ﷺ کی پاک سیرت سے لوگوں کو آشنا کریں اور آپؐ پر کثرت سے درود بھیج کر دشمنان دیں کا مقابلہ کریں ۔اس نازک موقعہ پر خداکے خلیفہ حضرت اقدس مرزا مسرور احمد ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرانس میں انتہاپسندوں کے ہاتھوں مارے گئے سیموئل پیٹی کے واقعہ کی پر زور الفاظ میں مذمت فرمائی ساتھ ہی فرانس کے صدر کو ہوش کے ناخن لینے کی صلاح دی ۔جنہوں نے اسلام کو بحران کا شکار مذہب قراردیاتھا۔آپ نے مسلمان راہنماؤں کو متحد ہونے کی تلقین فرمائی ۔ یہ مسلمانوں کا آپسی تفرقہ ہی ہے جو دوسروں کو پیارے آقاﷺ کی شان میں گستاخی کرنے پر ابھار رہا ہے۔اللہ تعالیٰ مسلمانوں کوعقل سلیم عطا فرمائے کہ وہ وقت کے امام کو پہچان کر اپنی عظمت رفتہ کو دوبارہ بحال کرنے والے ہوں ۔اللہ تعالیٰ دنیا کو اپنے خالق ومالک کو پہچاننے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین ۔

نیاز احمدنائک

تازہ ترین

متعلقہ پوسٹس

امام وقت کی آواز

حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزفرماتے ہيں: لوگ عورتوں کے حقوق ادا نہيں کرتے، وارثت کے حقوق۔ اور ان کا شرعي حصہ نہيں ديتے اب بھي يہ بات سامنے آتي ہے برصغير ميں اور جگہوں پر بھي ہوگي کہ عورتوں کو ان کا شرعي حصہ نہيں ديا جاتا۔ وراثث ميں ان کو جو اُن کا حق بنتاہے نہيں ملتا۔ اور يہ بات نظام کے سامنے تب آتي ہے جب بعض عورتيں وصيت کرتي ہيں تو لکھ ديتي ہيں مجھے وراثت ميں اتني جائيداد تو ملي تھي ليکن مَيں نے اپنے بھائي کو يا بھائيوں کو دے دي اور ا س وقت ميرے پاس کچھ نہيں ہے۔ اب اگر آپ گہرائي ميں جا کر ديکھيں،جب بھي جائزہ ليا گيا تو پتہ يہي لگتا ہے کہ بھائي نے يا بھائيوں نے حصہ نہيں ديا اور اپني عزت کي خاطر يہ بيان دے د يا کہ ہم نے دے دي ہے۔ (خطبات مسرور جلد1 صفحہ نمبر115-116))

کلام الامام المھدی ؑ

حضرت اقدس مسيح موعود عليہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہيں کہ: اىک شخص اپنى منکوحہ سے مہر بخشوانا چاہتا تھا مگر وہ عورت کہتى تھى تو

انفاخ النبی ﷺ

حضرت جابر بن عبداللہؓ بيان کرتے ہيں کہ حضرت سعد بن ربيع کي بيوي اپني دونوں بيٹيوں کے ہمراہ آنحضرتؐ کے پاس آئيں اور عرض کيا کہ يا رسول اللہؐ ! يہ دونوں سعد بن ربيعؓ کي بيٹياں ہيں جو آپؐ کے ساتھ لڑتے ہوئے احد کے دن شہيد ہو گئے تھے۔ اور ان کے چچا نے ان دونوں کا مال لے ليا ہے اور ان کے ليے مال نہيں چھوڑا اور ان دونوں کا نکاح بھي نہيں ہو سکتا جب تک ان کے پاس مال نہ ہو۔ آپؐ نے فرمايا اللہ تعاليٰ اس کے بارے ميں فيصلہ فرمائے گا۔ اس پر ميراث کے احکام پر مشتمل آيت نازل ہوئي۔ پھر رسول اللہؐ نے چچا کو بلوايا اور فرمايا کہ سعد کي بيٹيوں کو سعد کے مال کا تيسرا حصہ دو اور ان دونوں کي والدہ کو آٹھواں حصہ دو اور جو بچ جائے وہ تمہارا ہے                                                                                                                            (سنن الترمذي، کتاب الفرائض، باب ما جاء في ميراث البنات)