امام وقت کی آواز – اکتوبر۲۰۲۰

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

’’پھر ایک عام بات ہے جس کی طرف والدین کو توجہ دینی ہو گی۔وہ ہے اپنے بچوں میں اللہ تعالیٰ کا خوف پیدا کریں،اُنہیں متقی بنائیں اور یہ اُس وقت تک نہیں ہو سکتاجب تک والدین خود متقی نہ ہوں یا متقی بننے کی کوشش نہ کریں۔کیونکہ جب تک عمل نہیں کریں گے مُنہ کی باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔اگر بچہ دیکھ رہا ہے کہ میرے ماں باپ اپنے ہمسائیوں کے حقوق ادا نہیں کر رہے،اپنے بہن بھائیوں کے حقوق غصب کر رہے ہیں ،ذرا ذرا سی بات پر میاں بیوی میں ،ماں باپ میں ناچاقی اور جھگڑے شروع ہو رہے ہیں تو پھر بچوں کی تربیت اور ان میں تقوٰی پیدا کرنا بہت مُشکل ہو جائے گا۔اس لئے بچوں کی تربیت کی خاطر ہمیں بھی اپنی اصلاح کی بہت ضرورت ہے۔‘‘

                                                                                                                                            (خطبات مسرور جلد1 صفحہ150)

اولاد کو دین سکھانے اور دین سے منسلک رکھنے کے لئے، ان کی دینی تربیت کی طرف کم از کم اتنی کوشش تو انسان کی ہو جتنی دنیاوی کوششیں ہوتی ہیں۔ دنیا کی طرف زیادہ کوشش ہوتی ہے اور دین کی طرف بہت کم کوشش۔ اسی وجہ سے پھر بعض لوگوں کو ابتلاء بھی آتے ہیں۔ مشکلات میں بھی پڑتے ہیں۔ پھر آپ فرماتے ہیں کہ لوگوں کو اولاد کی خواہش ہوتی ہے لیکن ہوتا یہ ہے کہ بعض اوقات صاحب جائیداد لوگوں کو یہ کہتے سنا ہے کہ کوئی اولاد ہو جاوے جو اس جائیداد کی وارث ہوگویا کہ اولاد کی خواہش صرف جائیداد کے لئے ہے تا کہ جائیداد غیروں کے ہاتھ میں نہ چلی جاوے۔ آپ فرماتے ہیںمگر وہ نہیں جانتے کہ جب مر گئے تو شرکاء کون اور اولاد کون؟ سبھی غیر بن جاتے ہیں۔ پھر فرمایا کہ اولاد کے لئے اگر خواہش ہو تو اس غرض سے ہو کہ وہ خادمِ دین ہو۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ 14 جولائی 2017ء)

تازہ ترین

متعلقہ پوسٹس

امام وقت کی آواز

حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزفرماتے ہيں: لوگ عورتوں کے حقوق ادا نہيں کرتے، وارثت کے حقوق۔ اور ان کا شرعي حصہ نہيں ديتے اب بھي يہ بات سامنے آتي ہے برصغير ميں اور جگہوں پر بھي ہوگي کہ عورتوں کو ان کا شرعي حصہ نہيں ديا جاتا۔ وراثث ميں ان کو جو اُن کا حق بنتاہے نہيں ملتا۔ اور يہ بات نظام کے سامنے تب آتي ہے جب بعض عورتيں وصيت کرتي ہيں تو لکھ ديتي ہيں مجھے وراثت ميں اتني جائيداد تو ملي تھي ليکن مَيں نے اپنے بھائي کو يا بھائيوں کو دے دي اور ا س وقت ميرے پاس کچھ نہيں ہے۔ اب اگر آپ گہرائي ميں جا کر ديکھيں،جب بھي جائزہ ليا گيا تو پتہ يہي لگتا ہے کہ بھائي نے يا بھائيوں نے حصہ نہيں ديا اور اپني عزت کي خاطر يہ بيان دے د يا کہ ہم نے دے دي ہے۔ (خطبات مسرور جلد1 صفحہ نمبر115-116))

کلام الامام المھدی ؑ

حضرت اقدس مسيح موعود عليہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہيں کہ: اىک شخص اپنى منکوحہ سے مہر بخشوانا چاہتا تھا مگر وہ عورت کہتى تھى تو اپنى نصف نىکىاں مجھے دىدے

انفاخ النبی ﷺ

حضرت جابر بن عبداللہؓ بيان کرتے ہيں کہ حضرت سعد بن ربيع کي بيوي اپني دونوں بيٹيوں کے ہمراہ آنحضرتؐ کے پاس آئيں اور عرض کيا کہ يا رسول اللہؐ ! يہ دونوں سعد بن ربيعؓ کي بيٹياں ہيں جو آپؐ کے ساتھ لڑتے ہوئے احد کے دن شہيد ہو گئے تھے۔ اور ان کے چچا نے ان دونوں کا مال لے ليا ہے اور ان کے ليے مال نہيں چھوڑا اور ان دونوں کا نکاح بھي نہيں ہو سکتا جب تک ان کے پاس مال نہ ہو۔ آپؐ نے فرمايا اللہ تعاليٰ اس کے بارے ميں فيصلہ فرمائے گا۔ اس پر ميراث کے احکام پر مشتمل آيت نازل ہوئي۔ پھر رسول اللہؐ نے چچا کو بلوايا اور فرمايا کہ سعد کي بيٹيوں کو سعد کے مال کا تيسرا حصہ دو اور ان دونوں کي والدہ کو آٹھواں حصہ دو اور جو بچ جائے وہ تمہارا ہے                                                                                                                            (سنن الترمذي، کتاب الفرائض، باب ما جاء في ميراث البنات)