کلام الامام المہدی علیہ السلام – اپریل ۲۰۲۱

حضرت امام مہدی و مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:

’’یاد رہے کہ بہت سے لوگ میرے دعوے میں نبی کا نا م سن کر دھوکہ کھاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ گویا میں نے اس نبوت کا دعویٰ کیاہے جو پہلے زمانوں میں براہ راست نبیوں کو ملی ہے لیکن وہ اس خیال میں غلطی پر ہیں۔ میرا ایسا دعویٰ نہیں ہے بلکہ خدا تعالیٰ کی مصلحت اور حکمت نے آنحضرت ؐ کے افاضۂ روحانیہ کا کمال ثابت کرنے کے لئے یہ مرتبہ بخشا ہے کہ آپ کے فیض کی برکت سے مجھے نبوت کے مقام تک پہنچایا۔ اس لئے میں صرف نبی نہیں کہلا سکتا بلکہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے امتی۔ اور میر ی نبوت آنحضرت ؐ کی ظل ہے نہ کہ اصلی نبوت۔ اسی وجہ سے حدیث اور میرے الہام میں جیساکہ میرا نام نبی رکھا گیا ایساہی میرا نام امتی بھی رکھا ہے تا معلوم ہو کہ ہرایک کمال مجھ کو آنحضرتؐ کی اتباع اور آپ کے ذریعہ سے ملا ہے‘‘۔

(حقیقۃ الوحی ۔ روحانی خزائن جلد۲۲ صفحہ۱۵۴۔ حاشیہ)

’’آنحضرتؐ کے حق میں فرمایا ہے اِنَّکَ لَعَلیٰ خُلُقٍ عَظِیْمٌ تو خلق عظیم پر ہے۔اور عظیم کے لفظ کے ساتھ جس چیز کی تعریف کی جائے وہ عرب کے محاورہ میں اس چیز کی انتہائے کمال کی طرف اشارہ ہوتا ہے مثلاً اگر یہ کہا جائے کہ یہ درخت عظیم ہے تو اس سے یہ مطلب ہو گا کہ جہاں تک درختوں کے لئے طول و عرض اور تناوری ممکن ہے وہ سب اس درخت میں حاصل ہے۔ ایسا ہی اس آیت کا مفہوم ہے کہ جہاں تک اخلاق فاضلہ وشمائل حسنہ نفس انسانی کو حاصل ہو سکتے ہیں وہ تمام اخلاق کاملہ تامّہ نفس محمدی میں موجود ہیں ۔ سو یہ تعریف ایسی اعلیٰ درجہ کی ہے جس سے بڑھ کر ممکن نہیں۔ اور اسی کی طرف اشارہ ہے جو دوسری جگہ آنحضرتؐ کے حق میں فرمایا وکان فضل اللّٰہ علیک عظیما۔ یعنی تیرے پر خدا کا سب سے زیادہ فضل ہے اور کوئی نبی تیرے مرتبہ تک نہیں پہنچ سکتا۔ یہی تعریف بطور پیشگوئی زبور باب45 میں آنحضرت ؐ کی شان میں موجود ہے جیسا کہ فرمایا کہ خدا نے جو تیرا خدا ہے خوشی کے روغن سے تیرے مصاحبوں سے زیادہ تجھے معطّر کیا۔‘‘(براہین احمدیہ۔روحانی خزائن جلد 1 ص606)

تازہ ترین

متعلقہ پوسٹس

امام وقت کی آواز

حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزفرماتے ہيں: لوگ عورتوں کے حقوق ادا نہيں کرتے، وارثت کے حقوق۔ اور ان کا شرعي حصہ نہيں ديتے اب بھي يہ بات سامنے آتي ہے برصغير ميں اور جگہوں پر بھي ہوگي کہ عورتوں کو ان کا شرعي حصہ نہيں ديا جاتا۔ وراثث ميں ان کو جو اُن کا حق بنتاہے نہيں ملتا۔ اور يہ بات نظام کے سامنے تب آتي ہے جب بعض عورتيں وصيت کرتي ہيں تو لکھ ديتي ہيں مجھے وراثت ميں اتني جائيداد تو ملي تھي ليکن مَيں نے اپنے بھائي کو يا بھائيوں کو دے دي اور ا س وقت ميرے پاس کچھ نہيں ہے۔ اب اگر آپ گہرائي ميں جا کر ديکھيں،جب بھي جائزہ ليا گيا تو پتہ يہي لگتا ہے کہ بھائي نے يا بھائيوں نے حصہ نہيں ديا اور اپني عزت کي خاطر يہ بيان دے د يا کہ ہم نے دے دي ہے۔ (خطبات مسرور جلد1 صفحہ نمبر115-116))

کلام الامام المھدی ؑ

حضرت اقدس مسيح موعود عليہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہيں کہ: اىک شخص اپنى منکوحہ سے مہر بخشوانا چاہتا تھا مگر وہ عورت کہتى تھى تو

انفاخ النبی ﷺ

حضرت جابر بن عبداللہؓ بيان کرتے ہيں کہ حضرت سعد بن ربيع کي بيوي اپني دونوں بيٹيوں کے ہمراہ آنحضرتؐ کے پاس آئيں اور عرض کيا کہ يا رسول اللہؐ ! يہ دونوں سعد بن ربيعؓ کي بيٹياں ہيں جو آپؐ کے ساتھ لڑتے ہوئے احد کے دن شہيد ہو گئے تھے۔ اور ان کے چچا نے ان دونوں کا مال لے ليا ہے اور ان کے ليے مال نہيں چھوڑا اور ان دونوں کا نکاح بھي نہيں ہو سکتا جب تک ان کے پاس مال نہ ہو۔ آپؐ نے فرمايا اللہ تعاليٰ اس کے بارے ميں فيصلہ فرمائے گا۔ اس پر ميراث کے احکام پر مشتمل آيت نازل ہوئي۔ پھر رسول اللہؐ نے چچا کو بلوايا اور فرمايا کہ سعد کي بيٹيوں کو سعد کے مال کا تيسرا حصہ دو اور ان دونوں کي والدہ کو آٹھواں حصہ دو اور جو بچ جائے وہ تمہارا ہے                                                                                                                            (سنن الترمذي، کتاب الفرائض، باب ما جاء في ميراث البنات)