یہ اللہ تعالیٰ کی قدیم سے سنت چلی آرہی ہے کہ اسکے برگزیدہ لوگوں کی جماعت باوجود تھوڑ ی تعداد اور ظاہری ساز وسامان کی کمی کے بالآخر خداکے اذن اور منشاء سے بڑی بڑی جابر اور طاقتور جمیعتوں پر غالب آتے ہیں ۔مذہب کی تاریخ میں حضرت موسیٰ ؑ ایک ایسے ہی برگزیدہ نبی گزرے ہیں جن کو اپنے زمانہ کے سب سے ظالم و جابر بادشاہ فرعون سے نبر آزما ہونا پڑا۔ حضرت موسیٰ کی قوم بنی اسرائیل پر فرعون نے ہر طرح کے مظالم روا رکھے تھے۔ ان مظالم کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بلاء عظیم کے الفاظ میں یاد کیا ہے۔ فرعون اپنے زعم میں خود کو رب تصور کرتاتھا۔فرعون کو حقارت آمیز لہجے میں کہتاتھاکہ ’’کیا ہم نے تجھے بچپن سے اپنے درمیان نہیں پالا‘‘ اور اسکی قوم کو نہایت ہی حقارت آمیز لہجے میں کہا کہ یہ لوگ ایک حقیر سی جماعت ہیں۔اسکے باوجود یہ ہمیں غیظ و غضب دلاتے ہیں جبکہ ہم ایک جمیعت ہیں ۔فرعون اور اس کی جمیعت کی متکبرانہ روش کو اللہ تعالیٰ نے خاک میں ملادیا۔ جن نہروں کے بارے میں وہ کہتاتھا کہ یہ میرے حکم سے چلتی ہیں اسی میں اس کی تمام طاقت غرق آب ہوئی۔ اور نہتے اور کمزور اسرائیلوں کو اللہ تعالیٰ نے زمین کا وارث بنا دیا۔
بنی اسرائیل جس نے خداتعالیٰ کے بھاری نشانات کا مشاہدہ کیا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ظلم کا انجام شکست اور ذلت ہے اس قوم کی طرف منسوب ہونے والے آج نہتے فلسطینیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں ۔اللہ تعالیٰ دنیا میں مذہب کے اختلاف کی وجہ سے عذاب نہیں دیتا اس کا فیصلہ تواللہ تعالیٰ نے آخرت میں کرنا ہے البتہ ظلم، شوخیوں اور شرارتوں کو وہ بغیرسزا کے نہیں چھوڑتا۔وہ ظلم کو پسند نہیں کرتا اور مظلوم کی آہ کو اس کی بارگاہ میں شرف باریابی ہے۔ خلیفۃ المسیح حضرت مرز ا مسروراحمد ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مظلوم فلسطینیوں کے حق میں مسیحا بنتے ہوئے انکے خلاف ظلم و تعدی کو بندکرنے کی پرزورآواز بلند کی۔ چنانچہ حضورانور نے فرمایا ؛
’’اللہ تعالیٰ رحم فرمائے۔ یہ عید کی خوشیاں تو ان کے لئے غموں کا پہاڑ لے کر آئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے غموں کو خوشیوں میں تبدیل کرے، ان کو سکون کی زندگی میسر ہو، ان کو لیڈرشپ بھی ایسی اچھی ملے جو اُن کی رہنمائی کرنے والی ہو۔ مسلم ممالک اکٹھے ہو کر اپنا کردار ادا کریں تو فلسطینی مسلمانوں کو اور دوسری جگہ مظلوم مسلمان ہیں، جہاں بھی ہیں ان کو ظلموں سے بچا سکتے ہیں لیکن مسلم امّہ بھی اکٹھی نہیں ہوتی۔ مسلم ممالک کو جو ردِ عمل دکھانا چاہئے تھا، زور سے نہیں دکھایا جا رہا، ہلکے پھلکے بیان دے دیتے ہیں حالانکہ اکٹھا، مشترکہ بیان ہوتا تو اُس میں طاقت ہوتی۔ بہر حال اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی لیڈرشپ کو بھی عقل دے اور اسرائیلیوں کو بھی عقل دے کہ وہ ظلم نہ کریں۔ فلسطینیوں کو بھی جو بغیر لیڈرشپ کے اپنی مرضی کر رہے ہیں ان کو اللہ تعالیٰ اس لحاظ سے بھی عقل دے کہ اگر تو ان کی طرف سے کوئی ظلم ہے، اول تو نہیں ہے، اگر وہ ڈنڈوں کا استعمال کر رہے ہیں تو ان کے مخالف توپوں کا استعمال ہو رہا ہے جیسا کہ پہلے بھی میں کہہ چکا ہو کہ کوئی نسبت ہی نہیں ہے طاقت کے توازن کی۔ پس بہت زیادہ دعا کی ضرورت ہے فلسطینیوں کے لیے، اللہ تعالیٰ ان کے حالات کو بہتر کرے اور ان کے لیے آزادی کے سامان پیدا کرے اور پہلے، ابتدائی معاہدے کے تحت ان کی جو جگہیں میسر ہیں وہ ان کو ملی رہیں اور وہ اس پر قائم رہیں۔
(خطبہ عید الفطر فرمودہ مؤرخہ 14 مئی 2021)
کہتے ہیں کہ ظلم جب حدسے بڑھ جاتاہے تو مٹ جاتاہے۔ اللہ تعالیٰ دنیا سے ظلم وجور کا دور ختم کرے۔ اور دنیاکو اپنے خالق و مالک کوماننے اور اس زمانے کے حصن حصین اور عافیت کے حصار حضرت مرزاغلام احمد قادیانی ؑ کو ماننے کی توفیق عطا فرمائے۔ تاکہ دنیا مزید تباہیوں اور بلاؤں سے بچ جائے کیونکہ جب خداکا مامور متنبہ کرنے آئے اور پھر اسکی باتوں پر کان نہ دھرا جائے تو آفتیں پہلے سے بڑھ کر آتی ہیں تاکہ مخلوق خداکی توجہ اپنے خالق و مالک کی طرف مبذو ل ہوجائے۔ اور وہ حسنات دارین کے وارث بن جائیں ۔ نیاز احمدنائک