امام وقت کی آواز – ستمبر۲۰۲۰

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

پس چاہے مسلمان ممالک کی بد امنی اور بے سکونی اپنے ملکوں میں ایک دوسرے پر ظلم کی وجہ سے ہو یا اسلام دشمن طاقتوں کے مسلمانوں پر ظلم کرنے کی وجہ سے ہو، اس کا حل اور قیامِ امن کا علاج اور مسلمانوں کے رعب کو دوبارہ قائم کرنے کی طاقت صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے ہوئے اُس فرستادہ کے پاس ہے جو آنحضرت ؐ کا عاشقِ صادق اور آپؐ کی تعلیم کو دنیا میں پھیلانے کے مشن کے لئے مقرر کیا گیا ہے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا آپؐ کے چند اقتباسات آپ کے سامنے رکھتا ہوں جو تمام صحابہ کے مقام پر روشنی ڈالتے ہیں۔ اس وقت مسلمانوں نے اگر اپنی اکائی منوانی ہے، اپنی ساخت کو قائم کرنا ہے، اسلام کو غیروں کے حملوں سے بچانا ہے، دنیا کو اسلام کا پیغام پہنچا کر آنحضرت ؐ کے جھنڈے تلے لانا ہے تو پھر شیعہ سنّی کے فرق کو مٹانا ہو گا۔ آپس کے، فرقوں کے، گروہ بندیوں کے فرق کو مٹانا ہو گا۔ اُس اسلام کی تعلیم پر عمل کرنا ہو گا جو آنحضرت ؐ لے کر آئے تھے جس میں کوئی فرقہ نہیں تھا۔ جس میں ہر صحابی قربانی کی ایک مثال تھا۔ نیکی اور تقویٰ کا نمونہ تھا۔ ایسا ستارہ تھا جس سے روشنی اور رہنمائی ملتی تھی۔ لیکن بعض کا مقام آنحضرت ؐ کے نزدیک دوسروں سے بلند بھی تھا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقام کو اللہ تعالیٰ نے اور آنحضرت ؐ نے جو بلندی دی ہے وہ کسی دوسرے کو نہیں مل سکتی۔ اسی طرح حضرت عمرؓ کا مقام ہے۔ حضرت عثمانؓ کا اور حضرت علیؓ کا مقام ہے۔ حضرت امام حسینؓ اور حسنؓ کا مقام ہے۔ یہ درجہ بدرجہ اسی طرح آتا ہے۔پس حفظ مراتب کے لحاظ سے صحابہ کے مقام کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر یہ ہو گا تو ہر قسم کے فساد مٹ جائیں گے اور یہ سب فرق مٹانے کے لئے آخرین میں حضرت مسیح موعود ؑ مبعوث ہوئے اور ہر صحابی اور آنحضرت ؐ کے ہر قرابت دار کا مقام ہمیں بتا کر اُن کی عزت و تکریم قائم فرمائی۔

خطبہ جمعہ 23؍ نومبر 2012ء

تازہ ترین

متعلقہ پوسٹس

حیا بھی ایمان کا ایک حصہ ہے

دنیا تیزی سے بدل چکی ہے۔ اب خیالات، نظریات، رجحانات اور عقائد کی تشکیل کا سب سے تیز ذریعہ قلم اور کتاب نہیں، بلکہ موبائل

نظام خلافت: انسانیت کی بقا

آج کا دَور فتنوں کا دَور ہے۔ سیاسی انتشار، اخلاقی زوال، مذہبی منافرت اور روحانی بے راہ روی نے دنیا کو ایک ایسے موڑ پر

حسنِ اخلاق

اخلاق، انسانی شخصیت کا وہ پہلو ہے جو اس کے باطن کی آئینہ داری کرتا ہے۔ یہ محض ظاہری آداب کا نام نہیں، بلکہ دل