امام وقت کی  آواز – مئی ۲۰۲۰

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

’’روزہ کیا ہے؟ یہ ایک مہینہ خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر اپنے آپ کو ان جائز باتوں سے بھی روکنا ہے جن کی عام حالات میں اجازت ہے۔ پس جب اس مہینہ میں انسان اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر جائز باتوں سے رُکنے کی کوشش کرتا ہے تو پھر یہ تو نہیں ہو سکتا کہ ایک انسان ناجائز باتوں اور برائیوں کو کرے۔ اگر کوئی اس روح کو سامنے رکھتے ہوئے روزے نہیں رکھتا کہ میں نے یہ دن اللہ تعالیٰ کی رضا کو مقدم رکھتے ہوئے گزارنے ہیں اور ہر اس بات سے بچنا ہے جس سے بچنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور ہر اس بات کو کرنا ہے جس کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ اگر یہ روح مدنظر نہیں، ہر وقت ہمارے سامنے نہیں اور اس کے مطابق عمل کی کوشش نہیں تو یہ روزے بے فائدہ ہیں۔ …روزے کا اصل مقصد تو یہ ہے کہ تم تقویٰ میں ترقی کرو۔ ایک مہینہ تربیت کا مہیا کیا گیا ہے، اس میں اپنے تقویٰ کے معیار بڑھاؤ۔ یہ تقویٰ تمہارے نیکیوں کے معیار بھی بلند کرے گا۔ یہ تمہیں مستقل نیکیوں پر قائم بھی کرے گا اور اللہ تعالیٰ کا قرب بھی دلائے گا اور اسی طرح گزشتہ گناہ بھی معاف ہوں گے۔‘‘(خطبہ جمعہ مؤرخہ 10جون 2016ء)

’’اخلاق سے کیا مراد ہے اور ان کا مقصد کیا ہے؟ جو اچھے اخلاق کا مظاہر ہ ہے اس کا مقصد کیا ہے؟ اور ہمارے سامنے ان اخلاق کا نمونہ کیا ہے؟ آپ (حضرت مسیح موعودؑ) فرماتے ہیں …’’خُلق سے انسان اپنی انسانیت کو درست کرتاہے۔ اگر انسانوں کے فرائض نہ ہوں تو فرض کرنا پڑے گا‘‘ (انسانوں کے جو فرائض ہیں وہ اگر ادا نہ کرتا ہو یا مقرر نہ ہوں تو پھر فرض کرنا پڑے گا، دیکھنا پڑے گا) ’’کہ آدمی ہے؟ گدھا ہے؟ یا کیا ہے؟ جب خُلق میں فرق آجاوے توصورت ہی رہتی ہے۔‘‘ انسان بننے کے لئے تو اعلیٰ اخلاق ضروری ہیں اور اگر خُلق اچھا نہیں، اگر ان میں فرق آجاتا ہے تو پھر ظاہری صورت انسان کی رہ جاتی ہے اور جو اصل انسانیت ہے وہ ختم ہو جاتی ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ 9 جون 2017ء)

تازہ ترین

متعلقہ پوسٹس

امام وقت کی آواز

حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزفرماتے ہيں: لوگ عورتوں کے حقوق ادا نہيں کرتے، وارثت کے حقوق۔ اور ان کا شرعي حصہ نہيں ديتے اب بھي يہ بات سامنے آتي ہے برصغير ميں اور جگہوں پر بھي ہوگي کہ عورتوں کو ان کا شرعي حصہ نہيں ديا جاتا۔ وراثث ميں ان کو جو اُن کا حق بنتاہے نہيں ملتا۔ اور يہ بات نظام کے سامنے تب آتي ہے جب بعض عورتيں وصيت کرتي ہيں تو لکھ ديتي ہيں مجھے وراثت ميں اتني جائيداد تو ملي تھي ليکن مَيں نے اپنے بھائي کو يا بھائيوں کو دے دي اور ا س وقت ميرے پاس کچھ نہيں ہے۔ اب اگر آپ گہرائي ميں جا کر ديکھيں،جب بھي جائزہ ليا گيا تو پتہ يہي لگتا ہے کہ بھائي نے يا بھائيوں نے حصہ نہيں ديا اور اپني عزت کي خاطر يہ بيان دے د يا کہ ہم نے دے دي ہے۔ (خطبات مسرور جلد1 صفحہ نمبر115-116))

کلام الامام المھدی ؑ

حضرت اقدس مسيح موعود عليہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہيں کہ: اىک شخص اپنى منکوحہ سے مہر بخشوانا چاہتا تھا مگر وہ عورت کہتى تھى تو

انفاخ النبی ﷺ

حضرت جابر بن عبداللہؓ بيان کرتے ہيں کہ حضرت سعد بن ربيع کي بيوي اپني دونوں بيٹيوں کے ہمراہ آنحضرتؐ کے پاس آئيں اور عرض کيا کہ يا رسول اللہؐ ! يہ دونوں سعد بن ربيعؓ کي بيٹياں ہيں جو آپؐ کے ساتھ لڑتے ہوئے احد کے دن شہيد ہو گئے تھے۔ اور ان کے چچا نے ان دونوں کا مال لے ليا ہے اور ان کے ليے مال نہيں چھوڑا اور ان دونوں کا نکاح بھي نہيں ہو سکتا جب تک ان کے پاس مال نہ ہو۔ آپؐ نے فرمايا اللہ تعاليٰ اس کے بارے ميں فيصلہ فرمائے گا۔ اس پر ميراث کے احکام پر مشتمل آيت نازل ہوئي۔ پھر رسول اللہؐ نے چچا کو بلوايا اور فرمايا کہ سعد کي بيٹيوں کو سعد کے مال کا تيسرا حصہ دو اور ان دونوں کي والدہ کو آٹھواں حصہ دو اور جو بچ جائے وہ تمہارا ہے                                                                                                                            (سنن الترمذي، کتاب الفرائض، باب ما جاء في ميراث البنات)