گلہائے رنگا رنگ سے زینت چمن کی ہے (اداریہ – جون ۲۰۲۰ )

اس دنیا میں مختلف رنگ ونسل کی حامل اللہ تعالیٰ کی مخلوق پائی جاتی ہے ۔ساری مخلوق ہی باوجود نسلی ،لسانی اور علاقائی امتیاز کے خداتعالیٰ کی بنائی ہوئی کائنات سے مستفید ہورہی ہے ۔اجرام سماوی اور دیگر قدرتی وسائل ہر ایک کے لئے یکساں طور پر میسر ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے ان سب کو بنی نوع انسان کی خدمت کے لئے یکساں طور پر مسخر کیا ہواہے۔انسان کی دست درازی اورحرص ولالچ کی وجہ سے قدرتی وسائل کا استحصال ہورہاہے ۔اورانسانوں کے مابین پائے جانے والے نسلی اورلسانی برتری کی وجہ سے ایک فساد عظیم برپاہواہے ۔جبکہ خداتعالیٰ کی ساری مخلوق ایک فیملی کی طرح ہے اور سب آدم کی اولاد ہے ۔اور خداکی نظر میں وہی برتر اورافضل ہے جو خداکی بنائی ہوئی اشرف المخلوقات یعنی انسان کے ساتھ اچھا سلوک کرتاہے اور اسکے ساتھ کسی بھی قسم کا بھیدبھاؤ نہیں کرتا۔

اسلام سے قبل عرب کا  معاشرہ جاہلیت کے نام سے موسوم تھا ۔ اس معاشرے میں  خاندانی تفاخر اپنے عروج پر تھا۔رنگ ونسل کے امتیاز کی جڑیں عرب معاشرے میں کافی گہری اور پختہ تھیں ۔لیکن اسلام نے خاندانی تفاخر اور رنگ ونسل کے امتیاز کو یکسر مٹا دیا ۔اور بزرگی اور برتری کی بنیاد تقویٰ ،اخلاق اور نیکی پر رکھی ۔اسلام نے غلامی کے نظام کو ختم کیا ۔غلاموں کو نہ صرف معاشرے میں انکے  حقوق دئے بلکہ انکے ہاتھ میں قیادت اور سیادت تھمادی۔قبائلی فخر ومباہات کا اسلام نے یہ کہہ کر قلع قمع کیا کہ مختلف قبائل کا پایا جانا صرف تعارف اور شناسائی کے لئے ہے ۔مختلف قبائل اور رنگ ونسل کے لوگوں کو اسلام نے ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اور اور پشتوں کے نسلی اور لسانی امتیاز کو مٹاتے ہوئے آپس میں اخوت اوربھائی چارے کے بے مثال نمونے قائم کئے ۔اسلام اس حسین چمن کی مانند ہوگیا جس میں مختلف نوع کے پھول ہوں اور ہر ایک پھول اس چمن کی خوبصورتی میں چار چاند لگاتاہو۔آپ ﷺ نے غلاموں پر ہونے والی زیادتیوں کو ختم کیا ۔انکو وہی کچھ پہنانے اور کھلانے کی ترغیب دی جو کچھ مالک خود پہنتا اورکھاتاتھا۔رنگ اور نسل کے امتیازات کو مٹانے کے لئے آپﷺ تادم زیست کوشاں رہے ۔حجۃ الوداع کے موقعے پر آپ نے گورے کالے کی تمیز کو یہ کہہ کر یکسر مٹایا کہ کسی گورے کو کالے پر اور کسی کالے کو گورے پر کسی نوع کی کوئی برتری نہیں ہے ۔کسی عجمی کو عربی پر اورکسی عربی کو عجمی پر کسی قسم کی فضیلت نہیں ہے ۔خداکے نزدیک بزرگی اور برتری تقویٰ شعار لوگوں کی ہے ۔آپﷺ نے یہ بھی فرمایاکہ ہر ایک کامال ،جان اور عزت کی حرمت ہے ۔یوں آپ نے ظلم وفساد ،فخر ومباہات سے پُر معاشرے کو عدل وانصاف سے بھر دیا ۔

آجکل امریکہ اوردنیاکے دوسرے ممالک میں نسلی امتیازات پر جو مظاہرے ہورہے ہیں انکے لئے آنحضرت ﷺ کی ذا ت میں ایک عدیم المثال اسوہ موجود ہے ۔اگر وہ کامیاب ہوناچاہتے ہیں تو آپﷺ کے اسوہ کو اپنا تے ہوئے رنگ ونسل کے امتیازات کو یکسر ختم کرناہوگا اور آپﷺ کے نقش قدم کی پیروی کرنی ہوگی ۔اورہر ایک شہری کو برابری کے حقوق دیتے ہوئے انکی جان اور مال کی حفاظت کرنی ہوگی ۔Unity in diversity تبھی حقیقی معنوں میں قائم رہ سکتی ہے ۔جس طرح ایک باغ میں مختلف درخت باوجود اختلاف رنگ کے ایک ہی قطار میں کھڑے نظر آتے ہیں اسی طرح امریکہ اور دوسرے ممالک بھی باوجود اختلاف رنگ ونسل کے اتحاد واتفاق کی لڑی میں پروتے ہوئے ترقیات کی راہ پر گامزن ہوجائیں گے۔

نیاز احمد نائک

تازہ ترین

متعلقہ پوسٹس

امام وقت کی آواز

حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزفرماتے ہيں: لوگ عورتوں کے حقوق ادا نہيں کرتے، وارثت کے حقوق۔ اور ان کا شرعي حصہ نہيں ديتے اب بھي يہ بات سامنے آتي ہے برصغير ميں اور جگہوں پر بھي ہوگي کہ عورتوں کو ان کا شرعي حصہ نہيں ديا جاتا۔ وراثث ميں ان کو جو اُن کا حق بنتاہے نہيں ملتا۔ اور يہ بات نظام کے سامنے تب آتي ہے جب بعض عورتيں وصيت کرتي ہيں تو لکھ ديتي ہيں مجھے وراثت ميں اتني جائيداد تو ملي تھي ليکن مَيں نے اپنے بھائي کو يا بھائيوں کو دے دي اور ا س وقت ميرے پاس کچھ نہيں ہے۔ اب اگر آپ گہرائي ميں جا کر ديکھيں،جب بھي جائزہ ليا گيا تو پتہ يہي لگتا ہے کہ بھائي نے يا بھائيوں نے حصہ نہيں ديا اور اپني عزت کي خاطر يہ بيان دے د يا کہ ہم نے دے دي ہے۔ (خطبات مسرور جلد1 صفحہ نمبر115-116))

کلام الامام المھدی ؑ

حضرت اقدس مسيح موعود عليہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہيں کہ: اىک شخص اپنى منکوحہ سے مہر بخشوانا چاہتا تھا مگر وہ عورت کہتى تھى تو اپنى نصف نىکىاں مجھے دىدے

انفاخ النبی ﷺ

حضرت جابر بن عبداللہؓ بيان کرتے ہيں کہ حضرت سعد بن ربيع کي بيوي اپني دونوں بيٹيوں کے ہمراہ آنحضرتؐ کے پاس آئيں اور عرض کيا کہ يا رسول اللہؐ ! يہ دونوں سعد بن ربيعؓ کي بيٹياں ہيں جو آپؐ کے ساتھ لڑتے ہوئے احد کے دن شہيد ہو گئے تھے۔ اور ان کے چچا نے ان دونوں کا مال لے ليا ہے اور ان کے ليے مال نہيں چھوڑا اور ان دونوں کا نکاح بھي نہيں ہو سکتا جب تک ان کے پاس مال نہ ہو۔ آپؐ نے فرمايا اللہ تعاليٰ اس کے بارے ميں فيصلہ فرمائے گا۔ اس پر ميراث کے احکام پر مشتمل آيت نازل ہوئي۔ پھر رسول اللہؐ نے چچا کو بلوايا اور فرمايا کہ سعد کي بيٹيوں کو سعد کے مال کا تيسرا حصہ دو اور ان دونوں کي والدہ کو آٹھواں حصہ دو اور جو بچ جائے وہ تمہارا ہے                                                                                                                            (سنن الترمذي، کتاب الفرائض، باب ما جاء في ميراث البنات)