امام وقت کی آواز – نومبر ۲۰۲۰

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ، حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حوالہ پیش فرماتے ہیں:۔

کَانَ خُلُقُہٗ الْقُرْآن اس ایک فقرے میں توحید کا اعلیٰ معیار بھی بیان ہو گیا۔ احکام قرآن کا عملی نمونے کا معیار بھی قائم ہو گیا اور احکامات کی تفصیل بھی سامنے آ گئی۔ پس جس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سمجھ لیا اس نے خدا تعالیٰ کو سمجھ لیا اور جس نے خدا تعالیٰ کو سمجھ لیا اس نے سب کچھ ہی سمجھ لیا کیونکہ شرک ہی تمام بدیوں، غفلتوں اور گناہوں کی جڑ ہے اور توحید پر قائم ہونے کے بعد انسان میں اعلیٰ اخلاق، علم، عرفان، تمدن، سیاست، دوسرے فنون میں کمال، سب ہی کچھ آ جاتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا نور ایک تریاق ہے جس میں تمام امراض کا علاج ہے۔ پس ہمارا ماٹو جو خود بخود خدا تعالیٰ نے مقرر فرما دیا ہے وہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ہے۔ باقی تفصیلات ہیں جو نصیحت کے طور پر کام آ سکتی ہیں۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلد17 صفحہ 570 تا 571 خطبہ جمعہ فرمودہ 28؍ اگست 1936ء)

…آج جبکہ شرک کے ساتھ دہریت بھی بہت تیزی سے پھیل رہی ہے بلکہ دہریت بھی شرک کی ایک قسم ہے یا شرک دہریت کی قسم ہے۔ ہم اپنے آپ کو ایک نعرے پر محدود کر کے اور اس پر اکتفا کر کے اپنی دنیا و آخرت سنوارنے والے نہیں بن سکتے۔ نہ ہی ہم انسانیت کی خدمت کے زعم میں اپنی نمازوں اور عبادتوں کو چھوڑ سکتے ہیں۔ جو ایسا کرتا ہے یا کہتا ہے اس کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ پس ہمیں اپنے حقیقی مطمح نظر اور مقصود کو ہمیشہ سامنے رکھنے کی ضرورت ہے تا کہ ہم تمام دینی و دنیاوی انعامات کے حاصل کرنے والے بن سکیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی حقیقت کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (خطبہ جمعہ 9؍ مئی 2014ء)

تازہ ترین

متعلقہ پوسٹس

امام وقت کی آواز

حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزفرماتے ہيں: لوگ عورتوں کے حقوق ادا نہيں کرتے، وارثت کے حقوق۔ اور ان کا شرعي حصہ نہيں ديتے اب بھي يہ بات سامنے آتي ہے برصغير ميں اور جگہوں پر بھي ہوگي کہ عورتوں کو ان کا شرعي حصہ نہيں ديا جاتا۔ وراثث ميں ان کو جو اُن کا حق بنتاہے نہيں ملتا۔ اور يہ بات نظام کے سامنے تب آتي ہے جب بعض عورتيں وصيت کرتي ہيں تو لکھ ديتي ہيں مجھے وراثت ميں اتني جائيداد تو ملي تھي ليکن مَيں نے اپنے بھائي کو يا بھائيوں کو دے دي اور ا س وقت ميرے پاس کچھ نہيں ہے۔ اب اگر آپ گہرائي ميں جا کر ديکھيں،جب بھي جائزہ ليا گيا تو پتہ يہي لگتا ہے کہ بھائي نے يا بھائيوں نے حصہ نہيں ديا اور اپني عزت کي خاطر يہ بيان دے د يا کہ ہم نے دے دي ہے۔ (خطبات مسرور جلد1 صفحہ نمبر115-116))

کلام الامام المھدی ؑ

حضرت اقدس مسيح موعود عليہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہيں کہ: اىک شخص اپنى منکوحہ سے مہر بخشوانا چاہتا تھا مگر وہ عورت کہتى تھى تو

انفاخ النبی ﷺ

حضرت جابر بن عبداللہؓ بيان کرتے ہيں کہ حضرت سعد بن ربيع کي بيوي اپني دونوں بيٹيوں کے ہمراہ آنحضرتؐ کے پاس آئيں اور عرض کيا کہ يا رسول اللہؐ ! يہ دونوں سعد بن ربيعؓ کي بيٹياں ہيں جو آپؐ کے ساتھ لڑتے ہوئے احد کے دن شہيد ہو گئے تھے۔ اور ان کے چچا نے ان دونوں کا مال لے ليا ہے اور ان کے ليے مال نہيں چھوڑا اور ان دونوں کا نکاح بھي نہيں ہو سکتا جب تک ان کے پاس مال نہ ہو۔ آپؐ نے فرمايا اللہ تعاليٰ اس کے بارے ميں فيصلہ فرمائے گا۔ اس پر ميراث کے احکام پر مشتمل آيت نازل ہوئي۔ پھر رسول اللہؐ نے چچا کو بلوايا اور فرمايا کہ سعد کي بيٹيوں کو سعد کے مال کا تيسرا حصہ دو اور ان دونوں کي والدہ کو آٹھواں حصہ دو اور جو بچ جائے وہ تمہارا ہے                                                                                                                            (سنن الترمذي، کتاب الفرائض، باب ما جاء في ميراث البنات)