انفاخ النبی ﷺ – مئی ۲۰۲۰

ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رمضان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز (تہجد) کیسی ہوتی تھی؟ حضرت عائشہؓ نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ رمضان اور غیررمضان میں گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہ پڑھتے تھے۔ چار رکعتیں پڑھتے اور ان کی خوبی اور لمبائی نہ پوچھئے ۔ پھر چار رکعتیں پڑھتے اور ان کی خوبی اور لمبائی نہ پوچھئے۔ پھر تین رکعتیں پڑھتے۔

(بخاري، کتاب التھجد، باب قیام النبی ﷺباللیل فی رمضان: 1147)

حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت کی۔ انہوں نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم نے سحری کھائی۔ پھر آپ نماز کے لئے کھڑے ہوئے۔ (قتادہ کہتے تھے) میں نے پوچھا کہ اذان اورسحری کے درمیان کتنا وقفہ ہوتاہے؟ تو انہوں نے کہا: بقدر پچاس آیتوں کے۔

(بخاری ،کتاب الصوم، بَابُ قَدْرِ كَمْ بَيْنَ السَّحُورِ وَصَلَاةِ الفَجْرِ)

حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے رمضان میں کسی دِن بغیر عذر اور بیماری کے روزہ چھوڑا، عمر بھر کے روزے اُس کا بدل نہ ہوں گے خواہ وہ کتنے ہی روزے رکھے۔

(بخاری، کتاب الصوم، بَابُ إِذَا جَامَعَ فِي رَمَضَانَ)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نیکی میں سب لوگوں سے زیادہ سخی تھے اور رمضان میں بہت ہی سخاوت کرتے تھے۔ جب حضرت جبرائیل علیہ السلام آپؐ سے ملتے اور حضرت جبرائیل علیہ السلام رمضان کی ہر رات آپؐ سے ملاقات کرتے تھے، یہاں تک کہ (رمضان) گزرجاتا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان كے ساتھ قرآن کا دَور کرتے۔ جب حضرت جبرائیل علیہ السلام آپؐ سے ملتے تو آپؐ نیکی میں تیز چلنے والی ہوا سے بھی زیادہ سخی ہوتے۔

(بخاری، کتاب الصوم، بَابٌ: أَجْوَدُ مَا كَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَكُونُ فِي رَمَضَانَ)

تازہ ترین

متعلقہ پوسٹس

امام وقت کی آواز

حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزفرماتے ہيں: لوگ عورتوں کے حقوق ادا نہيں کرتے، وارثت کے حقوق۔ اور ان کا شرعي حصہ نہيں ديتے اب بھي يہ بات سامنے آتي ہے برصغير ميں اور جگہوں پر بھي ہوگي کہ عورتوں کو ان کا شرعي حصہ نہيں ديا جاتا۔ وراثث ميں ان کو جو اُن کا حق بنتاہے نہيں ملتا۔ اور يہ بات نظام کے سامنے تب آتي ہے جب بعض عورتيں وصيت کرتي ہيں تو لکھ ديتي ہيں مجھے وراثت ميں اتني جائيداد تو ملي تھي ليکن مَيں نے اپنے بھائي کو يا بھائيوں کو دے دي اور ا س وقت ميرے پاس کچھ نہيں ہے۔ اب اگر آپ گہرائي ميں جا کر ديکھيں،جب بھي جائزہ ليا گيا تو پتہ يہي لگتا ہے کہ بھائي نے يا بھائيوں نے حصہ نہيں ديا اور اپني عزت کي خاطر يہ بيان دے د يا کہ ہم نے دے دي ہے۔ (خطبات مسرور جلد1 صفحہ نمبر115-116))

کلام الامام المھدی ؑ

حضرت اقدس مسيح موعود عليہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہيں کہ: اىک شخص اپنى منکوحہ سے مہر بخشوانا چاہتا تھا مگر وہ عورت کہتى تھى تو

انفاخ النبی ﷺ

حضرت جابر بن عبداللہؓ بيان کرتے ہيں کہ حضرت سعد بن ربيع کي بيوي اپني دونوں بيٹيوں کے ہمراہ آنحضرتؐ کے پاس آئيں اور عرض کيا کہ يا رسول اللہؐ ! يہ دونوں سعد بن ربيعؓ کي بيٹياں ہيں جو آپؐ کے ساتھ لڑتے ہوئے احد کے دن شہيد ہو گئے تھے۔ اور ان کے چچا نے ان دونوں کا مال لے ليا ہے اور ان کے ليے مال نہيں چھوڑا اور ان دونوں کا نکاح بھي نہيں ہو سکتا جب تک ان کے پاس مال نہ ہو۔ آپؐ نے فرمايا اللہ تعاليٰ اس کے بارے ميں فيصلہ فرمائے گا۔ اس پر ميراث کے احکام پر مشتمل آيت نازل ہوئي۔ پھر رسول اللہؐ نے چچا کو بلوايا اور فرمايا کہ سعد کي بيٹيوں کو سعد کے مال کا تيسرا حصہ دو اور ان دونوں کي والدہ کو آٹھواں حصہ دو اور جو بچ جائے وہ تمہارا ہے                                                                                                                            (سنن الترمذي، کتاب الفرائض، باب ما جاء في ميراث البنات)