انفاخ النبی ﷺ – مارچ ۲۰۲۰

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی الله علیه وآله وسلم وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَيُوشِكَنَّ أَنْ يَنْزِلَ فِيكُمُ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا عَدْلًا، فَيَكْسِرَ الصَّلِيبَ، وَيَقْتُلَ الْخِنْزِيرَ، وَيَضَعَ الْجِزْيَةَ، وَيَفِيضَ الْمَالُ حَتَّى لاَ يَقْبَلَهُ أَحَدٌ، حَتَّى تَكُونَ السَّجْدَةُ الْوَاحِدَةُ خَيْرًا مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَاثُمَّ يَقُولُ أَبُو هُرَيْرَةَ رضی الله عنه: وَاقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ: (وَإِن مِّنْ أَهْلِ ٱلْكِتَٰبِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِۦ قَبْلَ مَوْتِهِۦۖ وَيَوْمَ ٱلْقِيَٰمَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدٗا)

(صحيح البخاري,كتاب البيوع)

ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے قریب ہے کہ ابن مریم ضرور تم میں نازل ہو ں۔ وہ بطور حکم عادل ہوں گے جو صلیب توڑ ڈالیں گے اور سور قتل کریں گے اور جنگ موقوف کریں گے اور مال کی اس قدر بہتات ہوگی کہ کوئی اسے قبول نہیں کرے گا۔

تشریح قتل الخنزیر عنوانِ باب میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت کا حوالہ دیا گیا ہے جو صحیح بخاری میں موصولاً نقل ہے۔ (دیکھیے روایت نمبر 2236 )۔ جمہور نے خنزیر کے قتل کی مطلق اجازت دی ہے۔ بعض شوافع نے یہ قید لگائی ہے اس شرط پر کہ اس سے ضرر کا اندیشہ ہو۔ (فتح الباری جز 4 صفحہ 522) ۔ صرف روایت مذکورہ بالا سے مسئلہ ہے معنونہ مستنبط نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس میں آئندہ زمانے کی خبر ہے اور ضروری نہیں کہ غیب کی خبریں اپنے ظاہری الفاظ میں پوری ہوں۔ اس غرض سے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت کا حوالہ عنوان باب میں دیا گیا ہے ۔ مضمون سابقہ کے تسلسل میں یہ باب قائم کیا گیا ہے ۔ بیع خنزیر کی حلت و حرمت کا مسئلہ مقصود نہیں ۔ قتل خنزیر کی خبر ایک پیشگوئی پر مشتمل ہے جو کتاب الانبیاء باب 49 نزول عیسی بن مریم علیہ السلام روایت نمبر 3448 میں مذکور ہے۔

تازہ ترین

متعلقہ پوسٹس

امام وقت کی آواز

حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزفرماتے ہيں: لوگ عورتوں کے حقوق ادا نہيں کرتے، وارثت کے حقوق۔ اور ان کا شرعي حصہ نہيں ديتے اب بھي يہ بات سامنے آتي ہے برصغير ميں اور جگہوں پر بھي ہوگي کہ عورتوں کو ان کا شرعي حصہ نہيں ديا جاتا۔ وراثث ميں ان کو جو اُن کا حق بنتاہے نہيں ملتا۔ اور يہ بات نظام کے سامنے تب آتي ہے جب بعض عورتيں وصيت کرتي ہيں تو لکھ ديتي ہيں مجھے وراثت ميں اتني جائيداد تو ملي تھي ليکن مَيں نے اپنے بھائي کو يا بھائيوں کو دے دي اور ا س وقت ميرے پاس کچھ نہيں ہے۔ اب اگر آپ گہرائي ميں جا کر ديکھيں،جب بھي جائزہ ليا گيا تو پتہ يہي لگتا ہے کہ بھائي نے يا بھائيوں نے حصہ نہيں ديا اور اپني عزت کي خاطر يہ بيان دے د يا کہ ہم نے دے دي ہے۔ (خطبات مسرور جلد1 صفحہ نمبر115-116))

کلام الامام المھدی ؑ

حضرت اقدس مسيح موعود عليہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہيں کہ: اىک شخص اپنى منکوحہ سے مہر بخشوانا چاہتا تھا مگر وہ عورت کہتى تھى تو

انفاخ النبی ﷺ

حضرت جابر بن عبداللہؓ بيان کرتے ہيں کہ حضرت سعد بن ربيع کي بيوي اپني دونوں بيٹيوں کے ہمراہ آنحضرتؐ کے پاس آئيں اور عرض کيا کہ يا رسول اللہؐ ! يہ دونوں سعد بن ربيعؓ کي بيٹياں ہيں جو آپؐ کے ساتھ لڑتے ہوئے احد کے دن شہيد ہو گئے تھے۔ اور ان کے چچا نے ان دونوں کا مال لے ليا ہے اور ان کے ليے مال نہيں چھوڑا اور ان دونوں کا نکاح بھي نہيں ہو سکتا جب تک ان کے پاس مال نہ ہو۔ آپؐ نے فرمايا اللہ تعاليٰ اس کے بارے ميں فيصلہ فرمائے گا۔ اس پر ميراث کے احکام پر مشتمل آيت نازل ہوئي۔ پھر رسول اللہؐ نے چچا کو بلوايا اور فرمايا کہ سعد کي بيٹيوں کو سعد کے مال کا تيسرا حصہ دو اور ان دونوں کي والدہ کو آٹھواں حصہ دو اور جو بچ جائے وہ تمہارا ہے                                                                                                                            (سنن الترمذي، کتاب الفرائض، باب ما جاء في ميراث البنات)