بانئ سلسلہ احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؑ اور خدمت خلق

شاہ ہارون سیفی مربی سلسلہ

لفظ ’’انسان‘‘ عربی لفظ’’ انس‘‘ کا تثنیہ ہے جس کے معنی ہیں ’’دو محبتیں‘‘ ۔ یعنی جب کسی آدمی میں دو محبتیں ایک اللہ کی محبت اور دوسری اس کی مخلوق کی محبت جمع ہو جاتی ہے تب وہ آدمی حقیقتاً انسان کہلاتا ہے۔ انسان کی تخلیق کا مقصد مخلوق خدا و ندی کی خدمت اور اس کی فلاح و بہبودی ہے ورنہ صرف اللہ کی عبادت کے لئے فرشتوں کا وجود ہی کافی تھا جیسا کہ مشہور شاعر میر خواجہ درد لکھتے ہیں کہ

درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو

ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کروبیاں

اور یہی انسانی زندگی کا مقصد ہے کہ جہاں ایک انسان اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی حمد و ثناء کرے وہیں انسانیت کی خدمت کرکے دونوں محبتوں کو حاصل کرنے کی جدّ و جہد میں مصروف رہے۔ انسانی زندگی کے اسی مقصد کی یاد دہانی کے لئے اللہ تعالیٰ وقتاً فوقتاً اپنے انبیاء کو مبعوث فرماتا رہا ہے۔ اپنی اسی سنت کے مطابق اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں انسانی زندگی کے مقصد کی یاد دہانی کے لئے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود ؑ کو مبعوث فرمایا۔ آپ ؑ کی تمام زندگی خدمت خلق اور انسانیت کی فلاح و بہبودی کے لئے وقف تھی اور آپ ؑ نے اپنی مقدس زندگی کا ایک ایک لمحہ خدمت خلق میں صرف کیا۔حضرت مسیح موعودؑ اپنی زندگی کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

میرا مطلوب و مقصود و تمنّا خدمت خلق است

ہمیں کارم ہمیں بارم ہمیں رسمم ہمیں راہم

حضرت مسیح موعود ؑ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے 1889ء میں جماعت احمدیہ کی بنیاد رکھی۔ اس مقدس جماعت میں شامل ہونے کے لئے اپنے 10 شرائط کو لازم قرار دیا جو 10 شرائط بیعت کے نام سے مشہور و معروف ہیں۔ ان شرائط میں چوتھی شرط آپ نے یہ بیان فرمائی کہ ’’ عام خلق اللہ کو عموماً اور مسلمانوں کو خصوصاً اپنے نفسانی جوشوں سے کسی نوع کی ناجائز تکلیف نہیں دے گا۔ نہ زبان سے نہ ہاتھ سے نہ کسی اور طرح سے۔‘‘

اسی طرح نویں شرط کا ذکر کرتے ہوئے آپ ؑ فرماتے ہیں کہ

عام خلق اللہ کی ہمدردی میں محض للہ مشغول رہے گا اور جہاں تک بس چل سکتا ہے اپنی خدا داد طاقتوں اور نعمتوں سے بنی نوع کو فائدہ پہنچائے گا۔(اشتہار تکمیل تبلیغ 12 جنوری 1889ء)

ایک اور مقام پر آپ ؑ خدمت انسانیت کے لئے حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ اور آپ ﷺ کے خلفاء کی مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

’’آنحضرت ﷺ کی طرف دیکھو کہ کس قدر خدمات میں عمر کو گزارا۔اور حضرت علیؓ کی حالت کو دیکھو کہ اتنے پیوند لگائے کہ جگہ نہ رہی۔ حضرت ابوبکرؓ نے ایک بڑھیا کو ہمیشہ حلوہ کھلانا وطیرہ کر رکھا تھا۔ غور کرو کہ یہ کس قدر التزام تھا۔ جب آپ ؓ فوت ہو گئے تو اس بڑھیا نے کہا کہ آج ابوبکرؓ  فوت ہو گیا۔ اس کے پڑوسیوں نے کہا کہ کیا تجھ کو الہام ہوا یا وحی ہوئی ؟تو اس نے کہا نہیں آج حلوہ لے کر نہیںآیا اس واسطے معلوم ہوا کہ فوت ہو گیا۔ یعنی زندگی میں ممکن نہ تھا کہ کسی حالت میں بھی حلوہ نہ پہنچے۔ دیکھو کس قدر خدمت تھی۔ ایسا ہی سب کو چاہئے کہ خدمت خلق کرے ‘‘۔

(ملفوظات جلد 3 صفحہ 369-370)

حضرت اقدس مسیح موعود ؑ ہمیشہ خدمت خلق کے کاموں میں مصروف رہتےاور کو ئی موقع انسانیت کی خدمت کا ہاتھ سے نہ جانے دیتے آپ کی مقدس زندگی ایسی متعدد مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ چنانچہ مذکور ہے کہ

 دہقانی عورتیں ایک دن بچوں کے لئے دوائی وغیرہ لینے آئیں۔ حضورؑ ان کو دیکھنے اور دوائی دینے میں مصرو ف رہے۔ اس پر مولوی عبدالکریم صاحبؓ نے عرض کیا کہ حضرت یہ تو بڑی زحمت کا کام ہے اور اس طرح حضور کا قیمتی وقت ضائع جاتا ہے۔ اس کے جواب میں حضور ؑ نے فرمایا :

’’ یہ بھی تو ویسا ہی دینی کام ہے۔ یہ مسکین لوگ ہیں۔ یہاں کوئی ہسپتال نہیں۔ میں ان لوگوں کی خاطر ہر طرح کی انگریزی اور یونانی دوائیں منگوا رکھتا ہوں جو وقت پر کام آجاتی ہیں۔ یہ بڑا ثواب کا کام ہے۔ مومن کو ان کاموں میں سست اور بے پرواہ نہ ہونا چاہئے۔‘‘ (ملفوظات جلد 1 صفحہ 308)

حضرت مسیح موعود ؑ کے دل میں خدمت انسانیت کا جو سمند رٹھاٹھے مارتا تھا اس کا اندازہ آپ ؑ کی مندرجہ ذیل تحریر سے بخوبی لگا یا جا سکتا ہے چنانچہ آپ ؑ فرماتے ہیں کہ

’’ میری تو یہ حالت ہے کہ اگر کسی کو درد ہوتا ہو اور میں نماز میں مصروف ہوں۔ میرے کان میں اس کی آواز پہنچ جاوے تو میں یہ چاہتا ہوں کہ نماز توڑ کر بھی اگر اس کو فائدہ پہنچا سکتا ہوں تو فائدہ پہنچاؤں اور جہاں تک ممکن ہے اس سے ہمدردی کروں۔ یہ اخلاق کے خلاف ہے کہ کسی بھائی کی مصیبت اور تکلیف میں اس کا ساتھ نہ دیا جاوے۔ اگر تم کچھ بھی اس کے لئے نہیں کر سکتے تو کم از کم دعا ہی کرو۔اپنے تو درکنار، میں تو کہتا ہوں کہ غیروں اور ہندوؤں کے ساتھ بھی ایسے اخلاق کا نمونہ دکھاؤ اور ان سے ہمدردی کرو۔ لاابالی مزاج ہرگز نہیں ہونا چاہئے۔‘‘

(ملفوظات جلد 1 صفحہ 305)

حضرت مسیح موعود ؑ نے تمام زندگی بلا تفریق مذہب و ملّت اور رنگ و نسل مخلوق خداوندی کی خدمت کی اور اپنی جماعت کو بھی یہی نصیحت فرمائی کہ اسلام بلا کسی امتیازیا تفریق مذہب و قوم کے خدمت خلق کی تعلیم دیتا ہے۔ آپ ؑ فرماتے ہیں کہ

’’پس تم جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہو۔ یاد رکھو کہ تم ہر شخص سے خواہ وہ کسی مذہب کا ہو‘ ہمدردی کرو اور بلاتمیز ہر ایک سے نیکی کرو کیونکہ یہی قرآن شریف کی تعلیم ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 4 صفحہ 219)

حضرت مفتی محمد صادق روایت کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ اکثر فرمایا کرتے تھے:’’ہمارے بڑے اصول دوہیں۔ اول خدا کے ساتھ تعلق صاف رکھنا اور دوسرے اس کے بندوں کے ساتھ ہمدردی اور اخلاق سے پیش آنا۔‘‘(ذکر حبیب صفحہ180)

ایک اور مقام پر حضرت مسیح موعودؑ اپنی جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :

’’ہمارا یہ اصول ہے کہ کل بنی نوع کی ہمدردی کرو۔ اگر ایک شخص ایک ہمسایہ ہندو کو دیکھتا ہے کہ اس کے گھر میں آگ لگ گئی اور یہ نہیں اٹھتا کہ تا آگ بجھانے میں مدد دےتو میں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ مجھ سے نہیں ہے۔ اگر ایک شخص ہمارے مریدوں میں سے دیکھتا ہے کہ ایک عیسائی کو کوئی قتل کرتا ہے اور وہ اس کے چھڑانے کے لئے مدد نہیں کرتا تو میں تمہیں بالکل درست کہتا ہوں کہ وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ (سراج منیر صفحہ 28) اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو حضرت مسیح موعود ؑ کی تعلیمات کی روشنی میں آپ ؑ کے منشاء کے مطابق بنی نوع انسان کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

تازہ ترین

متعلقہ پوسٹس

امام وقت کی آواز

حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزفرماتے ہيں: لوگ عورتوں کے حقوق ادا نہيں کرتے، وارثت کے حقوق۔ اور ان کا شرعي حصہ نہيں ديتے اب بھي يہ بات سامنے آتي ہے برصغير ميں اور جگہوں پر بھي ہوگي کہ عورتوں کو ان کا شرعي حصہ نہيں ديا جاتا۔ وراثث ميں ان کو جو اُن کا حق بنتاہے نہيں ملتا۔ اور يہ بات نظام کے سامنے تب آتي ہے جب بعض عورتيں وصيت کرتي ہيں تو لکھ ديتي ہيں مجھے وراثت ميں اتني جائيداد تو ملي تھي ليکن مَيں نے اپنے بھائي کو يا بھائيوں کو دے دي اور ا س وقت ميرے پاس کچھ نہيں ہے۔ اب اگر آپ گہرائي ميں جا کر ديکھيں،جب بھي جائزہ ليا گيا تو پتہ يہي لگتا ہے کہ بھائي نے يا بھائيوں نے حصہ نہيں ديا اور اپني عزت کي خاطر يہ بيان دے د يا کہ ہم نے دے دي ہے۔ (خطبات مسرور جلد1 صفحہ نمبر115-116))

کلام الامام المھدی ؑ

حضرت اقدس مسيح موعود عليہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہيں کہ: اىک شخص اپنى منکوحہ سے مہر بخشوانا چاہتا تھا مگر وہ عورت کہتى تھى تو

انفاخ النبی ﷺ

حضرت جابر بن عبداللہؓ بيان کرتے ہيں کہ حضرت سعد بن ربيع کي بيوي اپني دونوں بيٹيوں کے ہمراہ آنحضرتؐ کے پاس آئيں اور عرض کيا کہ يا رسول اللہؐ ! يہ دونوں سعد بن ربيعؓ کي بيٹياں ہيں جو آپؐ کے ساتھ لڑتے ہوئے احد کے دن شہيد ہو گئے تھے۔ اور ان کے چچا نے ان دونوں کا مال لے ليا ہے اور ان کے ليے مال نہيں چھوڑا اور ان دونوں کا نکاح بھي نہيں ہو سکتا جب تک ان کے پاس مال نہ ہو۔ آپؐ نے فرمايا اللہ تعاليٰ اس کے بارے ميں فيصلہ فرمائے گا۔ اس پر ميراث کے احکام پر مشتمل آيت نازل ہوئي۔ پھر رسول اللہؐ نے چچا کو بلوايا اور فرمايا کہ سعد کي بيٹيوں کو سعد کے مال کا تيسرا حصہ دو اور ان دونوں کي والدہ کو آٹھواں حصہ دو اور جو بچ جائے وہ تمہارا ہے                                                                                                                            (سنن الترمذي، کتاب الفرائض، باب ما جاء في ميراث البنات)