خلیفہ وقت کی تعظیم اور احترام

محمد شریف کوثر استاد جامعہ احمدیہ قادیان

آپ (احمدی) اپنے خلیفہ کی اتنی تعظیم واحترام کیوں کرتے ہو؟

خلافت کی اہمیت وبرکات سے ناواقف بعض غیر احمدی دوست اکثر ہمارے نوجوانوں سے پوچھتے ہیںکہ آپ لوگ کیوں اپنے خلیفہ کی اس قدر تعظیم، احترام اور اطاعت کرتے ہو؟ کیا یہ مبالغہ نہیں؟

اس سوال کے جواب میں عرض ہے کہ نہیں اس امر میں کسی قسم کا مبالغہ نہیں۔ خلافت ایک ایسی نعمت ہے کہ اس کی بے پناہ اطاعت کرنی چاہئے بے پناہ تعظیم کرنی چاہئے اور حد سے زیادہ احترام کرنا چاہئے۔

اور یہی نہیں ہر احمدی مسلمان اپنے خلیفہ سے اپنی جان سے بھی زیادہ محبت کرتا ہے، اور اپنا سب کچھ اس خلیفہ کے قدموں پر نچھاور کرنے کے لئے تیار رہتا ہے۔ اپنی نمازوں میں اپنے دل وجان سے محبوب خلیفہ کے لئے دعائیں کرتا ہے، اور اِس بیش قیمتی نعمت پر دن رات اللہ کا شکر ادا کرتا ہے۔

خلافت کے ساتھ ہمارا اس قدر لگاؤ اور تعلق کی وجہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ در حقیقت خلیفہ رسول کا جانشین ہوتا ہے اور اس کا قائمقام ہوتا ہے۔ اور مؤمنوں کی جماعت کے لئے اللہ تعالیٰ ہی خلیفہ کا انتخاب کرتا ہے۔ اور اللہ ہی براہ راست خلیفہ کا راہنما ہوتا ہے۔

پس ہم سب اس دنیا میں بھٹکے ہوئے لوگ ہیں اور ہدایت کے متلاشی ہیں، اورخدا تک پہنچنے کے خواہشمند ہیں۔ کوئی انسان بغیر ربانی مصلح کے ہدایت نہیں پا سکتا، اور وہی ربانی مصلح ہی انسان کی راہنمائی کرتا ہے اور اسے تقوی کی باریک در باریک راہوں پر چلا کر خدا تک پہنچا دیتا ہے۔

انسان کو اپنی منزل مقصود تک پہنچنے کے لئے کسی نہ کسی راہنما کی ضرورت پڑتی ہے، جو اسے راستہ کی طرف توجہ دلائے۔ پس خدا تک پہنچنے کا راستہ بتانے والا ہمارے لئے ہمارا خلیفہ ہے اور اس سے بہتر کوئی نہیں ہو سکتا جس کو خود اللہ تعالیٰ منتخب فرماتا ہے۔

امام جنید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

’’اللہ تعالیٰ کے متعلق قدیم علم میں ذکر ہے کہ کوئی انسان اللہ تعالیٰ کو حاصل نہیں کر سکتا مگر اس کے مقرب بندوں کے ذریعہ اور اس کے ہاتھ پر۔ پس اے راہ گزر تجھے ایک عارف باللہ کی ضرورت ہے جو تیری راہنمائی کرے اور ہلاکت سے بچائے۔ اللہ تعالیٰ سورۃ الکہف میں فرماتا ہے:

مَنْ يَهْدِ اللَّهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَهُ وَلِيًّا مُرْشِدًا (الكهف 18)

جسے اللہ (ہدایت کا) راستہ دکھائے وہی ہدایت پر ہوتا ہے اور جسے وہ گمراہ کرے اس کا تو (کبھی) کوئی دوست (اور) راہنما نہیں پائے گا۔‘‘

اسی طرح شیخ ابن عجیبہ ؓاپنا حال بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’ہم نے بہت نمازیں پڑھیں اور بہت روزے رکھے، اسی طرح ہم نے بہت خلوت نشینی اختیار کی اور بہت وقت ذکر الہی میں صرف کیا، قرآن کریم کی بھی کثرت سے تلاوت کی۔ خدا کی قسم! ہم نے اپنے دلوں کو نہ پہچانا اور نہ الفاظ کی حلاوت کی لذت محسوس کی یہاں تک کہ ہم اہل المعانی لوگوں کی صحبت اختیار کی۔ پس انہوں نے ہمیں تھکاوٹ سے راحت کی طرف نکالا اور ملاوٹپن سے پاکیزگی کی طرف اور انکار سے معرفت کی طرف۔‘‘ (ترجمہ از کتاب، إيقاظ الھمم في شرح الحکم)

مولانا جلال الدین رومیؒ نے فرمایا ہے:

’’جو انسان بغیر مرشد کے کسی راہ پر چل پڑے تو منزل مقصود تک پہنچنے میں اسے سو سال لگ جائیں گے جبکہ کہ راہ دو دن سے زیادہ کا نہیں۔  اور اللہ تعالیٰ کا اپنے بندہ سے راضی ہونے کی علامتوں میں سے ایک علامت یہ ہے کہ وہ اسے اہل اللہ اور اس کے خاص بندوں سے ملنے کا شرف عطا کرتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کی زمین میں ایک عالِم مشعل راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اور اللہ جسے خیر دینا چاہئے تو اس روشنی میں سے اسے حصہ دیتا ہے۔ اور تربیت کرنے والے بزرگ کے ساتھ رہنا ترقی اور تربیت کا باعث بنتی ہے۔ پس عارفین کی صحبت تجھے واصلین کے درجہ تک پہنچا دیتی ہے۔‘‘ (ترجمہ از کتاب، حکم مولانا جلال الدين الرومي)

ہر احمدی مسلمان اس بات کا گواہ ہے کہ خلیفہ نے ہی اسے حقیقی اسلام سکھایا، اسے تقوی پر چلتے ہوئے زندگی بسر کرنے کی تعلیم دی اور قرآن اور حکم کی باتیں سکھائی۔ محمد عربی ﷺ سے عشق اور اتباع کرنا سکھایا، اس کے لئے دعائیں کی، قدم قدم پر اس کا ساتھ دیا۔ دینی، دنیاوی، علمی، اور روحانی معاملات میں راہنمائی فرمائی۔

اللہ ہمیں توفیق دے کہ ہم خلافت کے حقیقی سلطان نصیر بنیں اور اس نعمت کی قدر کرنے والے ہوں، آمین۔

تازہ ترین

متعلقہ پوسٹس

امام وقت کی آواز

حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزفرماتے ہيں: لوگ عورتوں کے حقوق ادا نہيں کرتے، وارثت کے حقوق۔ اور ان کا شرعي حصہ نہيں ديتے اب بھي يہ بات سامنے آتي ہے برصغير ميں اور جگہوں پر بھي ہوگي کہ عورتوں کو ان کا شرعي حصہ نہيں ديا جاتا۔ وراثث ميں ان کو جو اُن کا حق بنتاہے نہيں ملتا۔ اور يہ بات نظام کے سامنے تب آتي ہے جب بعض عورتيں وصيت کرتي ہيں تو لکھ ديتي ہيں مجھے وراثت ميں اتني جائيداد تو ملي تھي ليکن مَيں نے اپنے بھائي کو يا بھائيوں کو دے دي اور ا س وقت ميرے پاس کچھ نہيں ہے۔ اب اگر آپ گہرائي ميں جا کر ديکھيں،جب بھي جائزہ ليا گيا تو پتہ يہي لگتا ہے کہ بھائي نے يا بھائيوں نے حصہ نہيں ديا اور اپني عزت کي خاطر يہ بيان دے د يا کہ ہم نے دے دي ہے۔ (خطبات مسرور جلد1 صفحہ نمبر115-116))

کلام الامام المھدی ؑ

حضرت اقدس مسيح موعود عليہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہيں کہ: اىک شخص اپنى منکوحہ سے مہر بخشوانا چاہتا تھا مگر وہ عورت کہتى تھى تو اپنى نصف نىکىاں مجھے دىدے

انفاخ النبی ﷺ

حضرت جابر بن عبداللہؓ بيان کرتے ہيں کہ حضرت سعد بن ربيع کي بيوي اپني دونوں بيٹيوں کے ہمراہ آنحضرتؐ کے پاس آئيں اور عرض کيا کہ يا رسول اللہؐ ! يہ دونوں سعد بن ربيعؓ کي بيٹياں ہيں جو آپؐ کے ساتھ لڑتے ہوئے احد کے دن شہيد ہو گئے تھے۔ اور ان کے چچا نے ان دونوں کا مال لے ليا ہے اور ان کے ليے مال نہيں چھوڑا اور ان دونوں کا نکاح بھي نہيں ہو سکتا جب تک ان کے پاس مال نہ ہو۔ آپؐ نے فرمايا اللہ تعاليٰ اس کے بارے ميں فيصلہ فرمائے گا۔ اس پر ميراث کے احکام پر مشتمل آيت نازل ہوئي۔ پھر رسول اللہؐ نے چچا کو بلوايا اور فرمايا کہ سعد کي بيٹيوں کو سعد کے مال کا تيسرا حصہ دو اور ان دونوں کي والدہ کو آٹھواں حصہ دو اور جو بچ جائے وہ تمہارا ہے                                                                                                                            (سنن الترمذي، کتاب الفرائض، باب ما جاء في ميراث البنات)