سیدنا حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیز نے حال ہی میں مکرم آصف باسط صاحب کےساتھ ایک ملاقات میں فرمایاکہ ’’مجھے تو وہ شعر اپنی حالت کے لئے لکھا گیا لگتاہےکہ
جے میں ویکھاں عملاں ولے،کچھ نئیں میرے پلے
جے ویکھا ںتیری رحمت ولّے بلّے بلّے بلّے
یہ ایک ابدی صداقت ہے کہ خداکےبرگزیدہ لوگ باوجود عمل کے میدان کے شاہ سوار ہونے کے سلوک و معرفت کے اس مقام پر فائز ہوتے ہیں کہ خداکی رضاورضوان بزور بازو حاصل نہیں کی جاسکتی بلکہ دونوں جہاں کی کامیابی خداتعالیٰ کی رحمت اور فضل پر ہی موقوف سمجھتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود ؑنے نہایت ہی دلنشین پیرائے میں ایک مرتبہ اپنےکم سن بچوں کو فرمایاتھا کہ ’’نہ علم بڑی چیز ہے اورنہ دولت بلکہ خداکافضل بڑی چیز ہے۔ ‘‘
اگر خدا کی رحمت اورفضل شامل حال نہ ہو تو اعمال صالحہ کی بھی توفیق نہیں ملتی۔ ایاک نعبد وایاک نستعین میںیہی بات بیان ہوئی ہےکہ اے خداہم تیری عبادت تیری دی ہوئی توفیق سے ہی کرتے ہیں۔اگر اللہ تعالیٰ کی توفیق شامل حال نہ ہو تو انسان عبادت بجا ہی نہیں لا سکتاہے۔
اعمال میںجب تک خدا کی رضامقصود نہ ہو وہ بے کار اور بے معنی ہوجاتے ہیں ۔اعمال کا دارومدار نیت پر ہے۔ خدا کی ذات ہی ہےجواجر ثواب سے نوازتی ہے۔ اسکے ہاںصحت نیت کا ہونا بہت ضروری ہے۔ خداتعالیٰ انسان کے جسموں اوراسکی صورت کو نہیں دیکھتا ہے بلکہ اسکی نظر انسان کے قلب پر ہوتی ہے جو کہ تقویٰ کا منبع و مصدر ہے۔ اللہ تعالیٰ متقیوں کی ہی قربانیوںکو قبول فرماتاہے۔ قربانی کا گوشت اور خون اس تک نہیں پہنچتاہے۔قربانی میںبھی اصل مقصدباطنی صفائی اور تقویٰ ہے۔ لیکن اگرانسان کی نیت صاف ہے جس پر انسان کے تمام اعمال کا دارومدار ہے تو پھر اعمال بجا نہ لا کر بھی اللہ تعالیٰ اجر سے نوازتا ہے۔ حدیث میںآتاہےکہ اگر انسان صحت نیت سےشہادت کی طلب کر ے تو اللہ تعالیٰ اسکو شہادت کا مقام عطا کرتاہے اگر چہ وہ بستر مرگ پر ہی کیوں نہ وفات پائے۔اگر خدا کاایک نیک اور مقرب بندہ بیمار ہو جاتاہےاور نیک اعمال بجالانےسے قاصر رہتاہے تواللہ تعالیٰ اس بندےکی نیک نیت کے موافق اسکو اجرثواب سے نوازتا رہتاہے۔ کیونکہ اگر وہ صحتیاب رہتا تو وہ اعمال ضرور بجا لاتا۔
بسااوقات اعمال سے عجب اور ریا پیدا ہونے کا اندیشہ رہتا ہے۔ اسلئے اللہ تعالیٰ بھی قرآن کریم میں فرماتاہے کہ فلا تزکو ا انفسکم یعنی اپنے آپ کوپاکیزہ نہ خیال کرو۔ کیونکہ یہ اللہ کی ذات ہےجو پاکیزگی عطا فرماتاہے۔ لہذا خدا کی رحمت اورفضل ہی ہے جو شامل حال ہوتو انسان کی کامیابی و کامرانی کی ضمانت دی جاسکتی ہے۔
اصل مقصداور مغز اعمال کی بجا آوری نہیں ہے بلکہ خدا کے نزدیک حسن نیت مقبول ہے۔ قرآن کریم میں آتاہے کہ نماز بسااوقات نمازیوں پر لعنت ملامت کرتی ہے جب نمازی اسےسے بے خبررہتے ہیں ۔یااگر نماز ممنوعہ اوقات میںپڑھی جائے تو قابل قبول نہیں ہوتی۔
خداکےبرگزیدہ بندے خدا کی رضاجوئی کے لئے ہی اعمال بجا لاتے ہیں۔ان کو جنت کی لالچ بھی نہیں ہوتی۔ جسطرح ایک والدہ اپنےبچوںسے بغیر کسی حرص و لالچ کے محبت کرتی ہے یہی خدا کے محبوب بندوںکا حال ہوتاہے۔ حضرت مسیح موعودؑنے بھی فرمایا ہے کہ ’’ہمارابہشت ہمارا خدا ہے‘‘۔ ان تمام باتوںکاماحاصل یہی ہے کہ خدا کی رحمت پرہی انسان کی کامیابی کا زینہ ہے۔ اسلئے خداکی رحمت سے مایوس ہوناکافروںکا کام ہے۔ اسلئے ہمیںہر حال خدا کی رحمت کا طلبگار ہونا چاہئے۔
نیاز احمدنائک