قرآن کریم کی آتش زدگی (اداریہ – ستمبر۲۰۲۰)

قرآن کریم جَلانے کے لئے نہیں بلکہ انسانوں کے دلوں کو جِلا بخشنے کے لئے نازل ہوئی ہے ۔یہ وہ کتا بِ رحمت ہے جس نے دنیا کو آگ کے گھڑے کے کنارے پر کھڑا پایااور اپنی امن وعافیت بخش   تعلیمات سےاسکو نجات بخشی ۔عرب قوم پشتوں سے خانہ جنگی میں ملوث تھی لیکن قرآن کریم   کی رحمت و رافت اور آپسی بھائی چارے سے بھر پور  تعلیمات سے یہ وحشی آپس میں بھا ئی بھائی ہوگئے ۔فتنہ فساد اور عداوت  کی سب جڑیں کاٹ ڈالیں ۔یہ ایک عظیم انقلاب تھاجو قرآن کریم نے عرب معاشرے میں پیداکیا اور پھر ساری دنیا میں اس کےنمونے منظر عام پر آئے ۔

دور حاضر میں اسلام کو بدنا م کرنے کے لئے غیروں کےمذموم حملوں کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے غلط رویئے کا بھی بڑا عمل دخل رہاہے ۔اسلام کو بدنام کرنے اور مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے کے نئے نئے ہتھکنڈے اپنائے جارہے ہیں ۔کبھی نبی کریم ﷺ کے کارٹون بنا کر مسلمانوں کےجذبات سے کھلواڑ ہو رہاہوتاہے تو کبھی قرآن کریم کے نذر آتش کرنے کے افسوس ناک واقعات رونما ہورہے ہوتے ہیں ۔ایسا ہی ایک حالیہ واقعہ سویڈن کے ملک میں ملمو جگہ پر دیکھنے کو ملاجس میں قرآن کریم کو جلانے کی جسارت کی گئی۔ اس پر وہاں کے بعض  مشتعل مسلمانوں نے پولیس کے ساتھ پتھراؤ کیااور آتش زنی کی۔مسلمانوں کے اس احمقانہ ردعمل کے نتیجہ میں وہاں قومی املاک کا نقصان ہوا۔اور اسلام کی غلط تصویر لوگوں کے سامنے آئی ۔جبکہ قرآن کریم امن و شانتی کی علمبردار کتاب ہے ۔قرآن کے ساتھ حقیقی محبت اور غیرت کا تقاضایہ ہے کہ اس کی تعلیمات پر عمل کیا جائے اور اسکی امن بخش تعلیمات سے لوگوں کو متعارف کرایا جائے ۔اس طرح کے بہیمانہ رویہ سے لوگ قرآ ن سے متنفر ہوجائینگے ۔قرآن کریم اللہ کی کتاب ہے اسکی حفاظت کی ذمہ داری خود اس نے اپنے ذمہ لی ہے ۔اس طرح قرآن کریم کو جلانے سے یہ لوگ اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہو پائینگے ۔قرآن کریم کی عظمت غیروں کے دلوں میں اسی وقت راسخ کی جاسکتی ہے جب اسکی حسین تعلیمات سے انکو روشناس کرایا جائے ۔یہی وہ پیغام ہے جو ہمارے امام عالی مقام حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس موقعہ پر دیا ہے ۔حضورانوراید ہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا؛

’’سچائی یہ ہے کہ سویڈن اور دوسرےمغربی ممالک میں لوگ اسلام کی سچی  تعلیمات سے بے خبر ہیں جس کی وجہ سے انتہا پسنداپنے جھوٹے پروپگنڈا کو پھیلانے کے لئے قرآنی آیات کو سیاق وسباق کے برخلاف پیش کرتے ہیں ۔جو لوگ اس طرح کے نفرت آمیز عمل کرتے ہیں انکو اسلام کا کچھ علم نہیں ۔نہ ہی جہاد کے لئے قرآن کریم میں بیان کردہ شرائط کا پتہ ہے۔وہ اس حقیقت کو نظر انداز کرتے ہیں کہ بائیبل میں کئی آیات ایسی ہیں جن کو سیاق  و سباق کے برخلاف پیش کرنے سے جبر جائز سمجھا جاسکتاہے۔اس کے باوجود ایک احمدی  مسلمان کا یہ فرض ہے کہ اسلام کی امن بخش تعلیمات کو ہر شہر قصبہ میں متعارف کرائے اور اسکو عملائے تاکہ لوگ ہمارے مذہب کی حقیقت کو جان لیں ۔‘‘

اللہ تعالیٰ کرے کہ امت محمدیہ اس پیغام کو بگوش ہوش سننے والی ہو اور اس پر عملدرآمد کرنے کی سعادت حاصل کرنے والی ہو۔

نیاز احمدنائک

تازہ ترین

متعلقہ پوسٹس

امام وقت کی آواز

حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزفرماتے ہيں: لوگ عورتوں کے حقوق ادا نہيں کرتے، وارثت کے حقوق۔ اور ان کا شرعي حصہ نہيں ديتے اب بھي يہ بات سامنے آتي ہے برصغير ميں اور جگہوں پر بھي ہوگي کہ عورتوں کو ان کا شرعي حصہ نہيں ديا جاتا۔ وراثث ميں ان کو جو اُن کا حق بنتاہے نہيں ملتا۔ اور يہ بات نظام کے سامنے تب آتي ہے جب بعض عورتيں وصيت کرتي ہيں تو لکھ ديتي ہيں مجھے وراثت ميں اتني جائيداد تو ملي تھي ليکن مَيں نے اپنے بھائي کو يا بھائيوں کو دے دي اور ا س وقت ميرے پاس کچھ نہيں ہے۔ اب اگر آپ گہرائي ميں جا کر ديکھيں،جب بھي جائزہ ليا گيا تو پتہ يہي لگتا ہے کہ بھائي نے يا بھائيوں نے حصہ نہيں ديا اور اپني عزت کي خاطر يہ بيان دے د يا کہ ہم نے دے دي ہے۔ (خطبات مسرور جلد1 صفحہ نمبر115-116))

کلام الامام المھدی ؑ

حضرت اقدس مسيح موعود عليہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہيں کہ: اىک شخص اپنى منکوحہ سے مہر بخشوانا چاہتا تھا مگر وہ عورت کہتى تھى تو

انفاخ النبی ﷺ

حضرت جابر بن عبداللہؓ بيان کرتے ہيں کہ حضرت سعد بن ربيع کي بيوي اپني دونوں بيٹيوں کے ہمراہ آنحضرتؐ کے پاس آئيں اور عرض کيا کہ يا رسول اللہؐ ! يہ دونوں سعد بن ربيعؓ کي بيٹياں ہيں جو آپؐ کے ساتھ لڑتے ہوئے احد کے دن شہيد ہو گئے تھے۔ اور ان کے چچا نے ان دونوں کا مال لے ليا ہے اور ان کے ليے مال نہيں چھوڑا اور ان دونوں کا نکاح بھي نہيں ہو سکتا جب تک ان کے پاس مال نہ ہو۔ آپؐ نے فرمايا اللہ تعاليٰ اس کے بارے ميں فيصلہ فرمائے گا۔ اس پر ميراث کے احکام پر مشتمل آيت نازل ہوئي۔ پھر رسول اللہؐ نے چچا کو بلوايا اور فرمايا کہ سعد کي بيٹيوں کو سعد کے مال کا تيسرا حصہ دو اور ان دونوں کي والدہ کو آٹھواں حصہ دو اور جو بچ جائے وہ تمہارا ہے                                                                                                                            (سنن الترمذي، کتاب الفرائض، باب ما جاء في ميراث البنات)