کلام الامام المہدی علیہ السلام – نومبر ۲۰۲۰

حضرت امام مہدی و مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:

خدا جانتا ہے کہ کبھی ہم نے جواب کے وقت نرمی اور آہستگی کو ہاتھ سے نہیں دیا اور ہمیشہ نرم اور ملائم الفاظ سے کام لیا ہے۔ بجز اس صورت کے کہ بعض اوقات مخالفوں کی طرف سے نہایت سخت اور فتنہ انگیز تحریریں پا کر کسی قدر سختی مصلحت آمیز اس غرض سے ہم نے اختیار کی کہ تا قوم اس طرح سے اپنا معاوضہ پا کر وحشیانہ جوش کو دبائے رکھے۔اور یہ سختی نہ کسی نفسانی جوش سے اور نہ کسی اشتعال سے بلکہ محض آیت اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَہِ وَالْمَوْعِظَۃ الْحَسَنَۃِوَجَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ (النحل: 126) پر عمل کر کے ایک حکمت عملی کے طور پر استعمال میں لائی گئی۔ اور وہ بھی اس وقت کہ مخالفوں کی توہین اور تحقیر اور بدزبانی انتہا تک پہنچ گئی اور ہمارے سید و مولیٰ، سرورِ کائنات، فخرِموجودات کی نسبت ایسے گندے اور پُر شر الفاظ ان لوگوں نے استعمال کئے کہ قریب تھا کہ ان سے نقضِ امن پیدا ہو تو اس وقت ہم نے اس حکمت عملی کو برتا۔

(البلاغ، (فریاددرد) روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 385)

ایک اور جگہ آپ فرماتے ہیں:

آیت جَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ کا یہ منشاء نہیں ہے کہ ہم اس قدر نرمی کریں کہ مداہنہ کر کے خلافِ واقعہ بات کی تصدیق کر لیں۔ کیا ہم ایسے شخص کو جو خدائی کا دعویٰ کرے اور ہمارے رسول کو پیشگوئی کے طور پر کذّاب قرار دے اور حضرت موسیٰ کا نام ڈاکو رکھے، راستباز کہہ سکتے ہیں۔ کیا ایسا کرنا مجادلۂ حسنہ ہے؟ ہرگز نہیں۔ بلکہ منافقانہ سیرت اور بے ایمانی کا ایک شعبہ ہے۔

(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 305 حاشیہ)

تازہ ترین

متعلقہ پوسٹس

نور کا راز

ایک دن کی بات ہے، 12 سالہ احمد اپنے کمرے میں بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے اپنے ابو سے ایک دن پہلے سوال کیا تھا:

سائنس کا سفر یونان سے بغداد تک

لفظ ’’ سائنس‘‘لاطینی زبان سے ماخوذ ہے، جس کے لغوی معنی ’’ علم‘‘کے ہیں۔ سائنس دراصل کائنات اور فطرت میں موجود قوانین وحقائق کے دریافت

علم حاصل کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں : ’’ رَبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ دعا سکھا