حضرت امام مہدی و مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
اصل بات یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے بہت سے احکام دیئے ہیں۔ بعض ان میں سے ایسے ہیں کہ ان کی بجا آوری ہر ایک کو میسر نہیں۔ مثلًا حج۔یہ اس آدمی پر فرض ہے جسے استطاعت ہو۔پھر راستہ میں امن ہو۔ پیچھے جو متعلقین ہیں ان کے گذارہ کا بھی معقول انتظام ہو اور اسی قسم کی ضروری شرائط پوری ہوں تو حج کرسکتا ہے۔
(ملفوظات جلددوم صفحہ ۵۹)
پس اسلام نے ان دونوں حقوق کو پورا کرنے کے لئے ایک صورت نماز کی رکھی جس میں خدا کے خوف کا پہلو رکھا اور محبت کی حالت کے اظہار کے لئے حج رکھاہے۔ خوف کے جس قدر ارکان ہیں وہ نماز کے ارکان سے بخوبی واضح ہیں کہ کس قدر تذلل اور اقرار عبودیت اس میں موجود ہے۔ اور حج میں محبت کے سارے ارکان پائے جاتے ہیں۔بعض وقت شدت محبت میں کپڑے کی بھی حاجت نہیں رہتی۔عشق بھی ایک جنون ہوتا ہے۔کپڑوں کو سنوار کر رکھنایہ عشق میں نہیں رہتا۔ سیالکوٹ میں ایک عورت ایک درزی پر عاشق تھی۔ اسے بہتیرا پکڑ کر رکھتے تھے۔ وہ کپڑے پھاڑ کر چلی آتی تھی۔ غرض یہ نمونہ جو انتہائے محبت کے لباس میں ہوتا ہے۔وہ حج میں موجود ہے۔ سر منڈایا جاتا ہے۔ دوڑتے ہیں۔ محبت کا بوسہ رہ گیا وہ بھی ہے۔جو خدا کی ساری شریعتوں میں تصویری زبان میں چلاآیا ہے۔پھر قربانی میں بھی کمال عشق دکھایا ہے۔اسلام نے پورے طورپر ان حقوق کی تکمیل کی تعلیم دی ہے۔ نادان ہے وہ شخص جو اپنی نابینائی سے اعتراض کرتا ہے۔
(ملفوظات جلددوم صفحہ ۲۲۵)