عَنْ كَثِیرِ بْنِ قَیسٍ،
قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا مَعَ أَبِی الدَّرْدَاءِ فِی مَسْجِدِ دِمَشْقَ،
فَجَاءَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: یا أَبَا الدَّرْدَاءِ، إِنِّی
جِئْتُكَ مِنْ مَدِینَةِ الرَّسُولِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیهِ وَسَلَّمَ لِحَدِیثٍ
بَلَغَنِی أَنَّكَ تُحَدِّثُهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیهِ
وَسَلَّمَ، مَا جِئْتُ لِحَاجَةٍ، قَالَ: فَإِنِّی سَمِعْتُ
رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللہُ عَلَیهِ وَسَلَّمَ، یقُولُ: مَنْ سَلَكَ
طَرِیقًا یطْلُبُ فِیهِ عِلْمًا سَلَكَ اللہُ بِهِ طَرِیقًا مِنْ طُرُقِ
الْجَنَّةِ، وَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ لَتَضَعُ أَجْنِحَتَهَا رِضًا لِطَالِبِ
الْعِلْمِ، وَإِنَّ الْعَالِمَ لَیسْتَغْفِرُ لَهُ مَنْ فِی السَّمَوَاتِ
وَمَنْ فِی الْأَرْضِ وَالْحِیتَانُ فِی جَوْفِ الْمَاءِ، وَإِنَّ فَضْلَ
الْعَالِمِ عَلَى الْعَابِدِ كَفَضْلِ الْقَمَرِ لَیلَةَ الْبَدْرِ عَلَى سَائِرِ
الْكَوَاكِبِ، وَإِنَّ الْعُلَمَاءَ وَرَثَةُ الْأَنْبِیاءِ، وَإِنَّ
الْأَنْبِیاءَ لَمْ یوَرِّثُوا دِینَارًا وَلَا دِرْهَمًا وَرَّثُوا الْعِلْمَ
فَمَنْ أَخَذَهُ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ.
(سنن ابو دائود حدیث
نمبر 3641)
ترجمہ: کثیر بن قیس کہتے ہیں
کہ میں ابو الدرداء ؓ کے ساتھ دمشق کی
مسجد میں بیٹھا تھا کہ اتنے میں ان کے پاس ایک شخص آیا اور ان سے کہنے لگا: اے ابو
الدرداء! میں آپ کے پاس رسول اللہ ﷺ کے شہر سے اس حدیث کے لئے آیا ہوں جس کے متعلق
مجھے یہ خبر ملی ہے کہ آپ اسے نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں میں آپ کے پاس کسی اور غرض
سے نہیں آیا ہوں، اس پر ابوالدرداء نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو
فرماتے ہوئے سنا ہے: جو شخص طلب علم کے
لئے راستہ طے کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے بدلے اسے جنت کی راہ چلاتا ہے اور فرشتے
طالب علم کی بخشش کی دعا کرتے ہیں یہاں تک کہ مچھلیاں پانی میں دعائیں کرتی ہیں،
اور عالم کی فضیلت عابد پر ایسے ہی ہے جیسے چودھویں رات کی تمام ستاروں پر، اور
علماء انبیاء کے وارث ہیں، اور نبیوں نے اپنا وارث درہم و دینار کا نہیں بنایا
بلکہ علم کا وارث بنایا تو جس نے علم حاصل کیا اس نے ایک وافر حصہ لیا ۔