کلام الامام المہدی علیہ السلام – اگست ۲۰۲۱
حضرت مسیح موعود ؑ اپنے ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں : ’’اے وہ ذات جس نے اپنی نعمتوں سے اپنی مخلوق کا احاطہ کیا
حضرت مسیح موعود ؑ اپنے ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں : ’’اے وہ ذات جس نے اپنی نعمتوں سے اپنی مخلوق کا احاطہ کیا
سیدنا حضرت محمد مصطفیٰﷺ فرماتے ہیں: جو تھوڑے پر شکر نہیں کرتا وہ زیادہ پر بھی شکر نہیں کرتا۔ جو بندوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا بھی شکر ادا نہیں کرتا۔ (مسند احمد بن حنبل۔ کتاب اول مسند الکوفیین حدیث18449) ایک موقعہ پر آپﷺ نے فرمایا کہ اے انصار کی جماعت! اللہ تعالیٰ نے طہارت اور صفائی سُتھرائی کے بارے میں تمہاری تعریف کی ہے۔ پس تمہاری طہارت کیا ہے؟ انصار نے عرض کی کہ ہم نماز کے لئے وضوء کرتے ہیں، غسل جنابت بھی کرتے ہیں اور پانی سے استنجا کرتے ہیں۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا یہی وہ چیز ہے پس تم اس کو لازم پکڑے رہو۔ (سنن ابن ماجہ۔ کتاب الطھارۃ و سننھا الاستنجاء بالماء)
وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا لُقْمٰنَ الْحِکْمَۃَ اَنِ اشْکُرْ لِلّٰہِ وَ مَنْ یَّشْکُرْ فَاِنَّمَا یَشْکُرُ لِنَفْسِہٖ ۚ وَ مَنْ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ ﴿۱۳﴾(لقمان:13) ترجمہ: اور یقیناً ہم نے لقمان کو حکمت عطا کی (یہ کہتے ہوئے)
حضرت علیؓ کی طرف یہ قول منسوب کیا جاتاہے کہ انہوں نے فرمایا کہ ’’میں قران ناطق(بولنے والاقرآن ) ہوں اور کتاب اللہ کتاب صامت یعنی خاموش کتاب‘‘ ہے۔اس قول کے پس پردہ دراصل یہ حکمت کارفرمانظر آتی ہے کہ کتاب اللہ کی اصل حکمت خداکے رسول اور اسکے ہدایت یافتہ خلفاء پر ہی بدرجہ اتم منکشف ہوتی ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نےیہی بات بیان فرمائی ہے کہ حضرت رسول کریم ﷺ کا کام کتاب اللہ کی آیات بیان کرنا اور انکی حکمت اور تعلیم سے آگاہ کرناہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرماتے ہیں: ’’ …پس دشمن ہمیں جو چاہے کہتا رہے۔ ہم پر جو بھی الزام لگاتے ہیں
حضرت مسیح موعود ؑ اپنے ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں : ’’آپ درود شریف کے پڑھنے میں بہت ہی متوجہ رہیں۔ اور جیسا کہ
حضرت کعبؓ بن عجرہؓ بیان فرماتے ہیں : ہم لوگوں نے)ایک دفعہ( حضرت رسول کریم ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم آپ لوگوں یعنی آپ کے گھر کے ساتھ تعلق رکھنے والے تمام لوگوں پر درود کس طرح بھیجا کریں۔ سلام بھیجنے کا طریق تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتا دیا ہے )مگر درود بھیجنے کا طریق ہم نہیں جانتے(۔ آپؐ نے فرمایا یوں کہا کرو۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰٓی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلیٰٓ اِبْرَاہِیْمَ وَ عَلٰٓی اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی
اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَۃُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ وَ اللّٰہُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۔(النور20) ترجمہ :۔ یقیناً وہ لوگ جو پسند کرتے ہیں کہ ان لوگوں میں جو ایمان لائے بے حیائی پھیل جائے اُن کے لئے دردناک عذاب ہوگا دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ اور اللہ جانتا ہے جبکہ تم نہیں جانتے۔ اِنَّ
سیدنا حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیز نے حال ہی میں مکرم آصف باسط صاحب کےساتھ ایک ملاقات میں فرمایاکہ ’’مجھے تو وہ شعر اپنی حالت کے
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرماتے ہیں:’’روایات میں ایک واقعہ آتا ہے کہ ایک شخص ھبار بن اسود نے رسول اللہؐ کی