امام وقت کی آواز – ستمبر ۲۰۲۱
’’جس طرح اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ مومن ایک منزل پر آ کر رک نہیں جاتا بلکہ آگے بڑھتا ہے تو ہماری انتہاء صرف عدل قائم کرنا ہی نہیں بلکہ اس سے آگے قدم بڑھانا ہے۔۔۔
’’جس طرح اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ مومن ایک منزل پر آ کر رک نہیں جاتا بلکہ آگے بڑھتا ہے تو ہماری انتہاء صرف عدل قائم کرنا ہی نہیں بلکہ اس سے آگے قدم بڑھانا ہے۔۔۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’ایک دوسری جگہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے …. (ترجمہ) اور ہم نے انسان کو اپنے
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تم دوسروں کی دیکھا دیکھی ایسے نہ کہو کہ لوگ ہم سے حسن سلوک کریں گے تو ہم بھی ان سے حسن سلوک کریں گے اور اگر انہوں نے ہم پہ ظلم کیا تو ہم بھی ان پر ظلم کریں گے بلکہ تم اپنے نفس کی تربیت اس طرح کرو کہ اگر لوگ تم سے حسن سلوک کریں تو تم ان سے احسان کا معاملہ کرو۔ اور اگر وہ تم سے بدسلوکی کریں تو بھی تم ظلم سے کام نہ لو۔ (ترمذی، کتاب البروالصلۃ والادب باب ماجاء فی الاحسان والعفو)
لَیْسَ عَلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جُنَاحٌ فِیْمَا طَعِمُوْٓا اِذَا مَا اتَّقَوْا وَّ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ثُمَّ اتَّقَوْا وَّ اٰمَنُوْا ثُمَّ اتَّقَوْا وَّ اَحْسَنُوْا وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ
’’ایک ہیرا تھا جو ہم سے جدا ہو گیا ہے اللہ تعالیٰ ایسے وفا شعار، خلافت سے وفا اور اخلاص کا تعلق رکھنے والے اور دین کو دنیا پر مقدم رکھنے والے جماعت کو عطا فرماتا رہے۔ لیکن اس کا نقصان ایسا ہے جس نے ہلا کر رکھ دیا ہے۔ وہ پیارا وجود وقف کی روح کو سمجھنے والا اور اس عہد کو حقیقی رنگ میں نبھانے والا تھا جو اس نے کیا تھا۔ مجھے حیرت ہوتی تھی اسے دیکھ کر اور اب تک ہوتی ہے کہ کس طرح اس دنیاوی ماحول میں پلنے والے بچے نے اپنے وقف کو سمجھا اور پھر اسے نبھایا۔اور ایسا نبھایا کہ اس کے معیار کو انتہا تک پہنچا دیا۔۔۔
’’…پھر شکر گزاری کے بھی کئی طریقے ہیں۔ اُن طریقوں کو ہمیشہ روزانہ اپنی زندگی میں تلاش کرتا رہے۔ ایک احمدی جو ہے، حقیقی مومن جو ہے وہ شکر گزاری کے ان طریقوں کو تلاش کرتا ہے تو پھر دل میں بھی شکر گزاری کرتا ہے۔ پھر شکرگزاری زبان سے شکریہ ادا کر کے بھی کی جاتی ہے۔ جب انسان اللہ تعالیٰ کی حمد کرتا ہے یا کسی دوسرے کی شکرگزاری بھی کرتا ہے تو زبان سے شکر گزاری ہے۔ اور پھر اپنے عمل اور حرکت و سکون سے بھی شکرگزاری کی جاتی ہے۔۔۔
حضرت مسیح موعود ؑ اپنے ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں : ’’اے وہ ذات جس نے اپنی نعمتوں سے اپنی مخلوق کا احاطہ کیا
سیدنا حضرت محمد مصطفیٰﷺ فرماتے ہیں: جو تھوڑے پر شکر نہیں کرتا وہ زیادہ پر بھی شکر نہیں کرتا۔ جو بندوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا بھی شکر ادا نہیں کرتا۔ (مسند احمد بن حنبل۔ کتاب اول مسند الکوفیین حدیث18449) ایک موقعہ پر آپﷺ نے فرمایا کہ اے انصار کی جماعت! اللہ تعالیٰ نے طہارت اور صفائی سُتھرائی کے بارے میں تمہاری تعریف کی ہے۔ پس تمہاری طہارت کیا ہے؟ انصار نے عرض کی کہ ہم نماز کے لئے وضوء کرتے ہیں، غسل جنابت بھی کرتے ہیں اور پانی سے استنجا کرتے ہیں۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا یہی وہ چیز ہے پس تم اس کو لازم پکڑے رہو۔ (سنن ابن ماجہ۔ کتاب الطھارۃ و سننھا الاستنجاء بالماء)
وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا لُقْمٰنَ الْحِکْمَۃَ اَنِ اشْکُرْ لِلّٰہِ وَ مَنْ یَّشْکُرْ فَاِنَّمَا یَشْکُرُ لِنَفْسِہٖ ۚ وَ مَنْ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ ﴿۱۳﴾(لقمان:13) ترجمہ: اور یقیناً ہم نے لقمان کو حکمت عطا کی (یہ کہتے ہوئے)
حضرت علیؓ کی طرف یہ قول منسوب کیا جاتاہے کہ انہوں نے فرمایا کہ ’’میں قران ناطق(بولنے والاقرآن ) ہوں اور کتاب اللہ کتاب صامت یعنی خاموش کتاب‘‘ ہے۔اس قول کے پس پردہ دراصل یہ حکمت کارفرمانظر آتی ہے کہ کتاب اللہ کی اصل حکمت خداکے رسول اور اسکے ہدایت یافتہ خلفاء پر ہی بدرجہ اتم منکشف ہوتی ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نےیہی بات بیان فرمائی ہے کہ حضرت رسول کریم ﷺ کا کام کتاب اللہ کی آیات بیان کرنا اور انکی حکمت اور تعلیم سے آگاہ کرناہے۔