Depression اور Suicide کی وجوہات اور اسکے سدباب کا اسلامی طریق

محمد طیب مربی سلسلہ شعبہ تاریخ بھارت قادیان

اللہ تعالیٰ کا یہ تمام بنی نو انسان پر فضل و احسان ہے کہ اس نے ہم کو اشرف المخلوقات بنایا اور ہمارے بیچ ایسے نبی آخرزمان کو مبعوث فرمایا جس نے ماضی اور مستقبل کی زندگی کو ہمارے سامنے بطور نمونہ پیش کیا جس کا علم اس سے پہلے کسی بھی انسان کو نہیں تھا اور وہ شخص جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھےاس شخص نے نہ صرف انسان کو خدا تعالیٰ کو پانے کی راہ دکھائی بلکہ ان راستوں کا بھی ہم کو بتایا جس کی وجہ سے انسان اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب بنتا ہے جیسےجیسے ہم نبوت کے زمانے سے دور ہوتے جا رہے ہیں ویسے ویسے انسان کا یقین خدا تعالیٰ پر کم ہوتا جا رہا ہے۔اور خدا تعالیٰ سے اپنی روزمرہ کی مشکلات کا حل تلاش کرنے کے بجائے خودکشی کے راستے کو اپنا کر اپنے آپ کو اس دنیائے فانی سے مٹا دینا زیادہ آسان سمجھتا ہے

سماجی مسائل

یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ خودکشی کی سب سے بڑی اور اہم وجہ سماجی مسائل وعوامل ہیں۔ معاشرے اور سماج میں روز مرہ خاندانی جھگڑے (اولاد، والدین، میاں بیوی، ساس بہو، بھائی بھائی کے درمیان جھگڑے ) اہل حقوق کے حق کی پامالی، معاشرے میں پھیلی منافرت، بدامنی، ظلم و تشدد، قتل و غارت وفتنہ فساد کے بڑھتے واقعات، حکومتوں وسرکاری اداروں میں ناانصافی، عوام کے ساتھ ان کا رویہ، جہیز اور بے جا مطالبات، ناخوشگوار شادیاں، تعلیمی دباؤ، والدین کی بے جا محبت یا سختی، نوجوان لڑ کو ں اور لڑکیوں کے درمیان بڑھتے ناجائز تعلقات وغیرہ۔

اقتصادی مسائل

اقتصادی مسائل خودکشی کی طرف بڑھتے رجحان کا دوسرا اہم سبب ہیں۔ اشیاء خورد و نوش کی فراوانی و بہتات کے باوجود غربت و افلاس کی وجہ سے جہاں فاقہ کش لوگ بھوکے مررہے ہیں وہیں جن کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہوتا ہے وہ قبل از وقت اپنے ہاتھوں اپنی موت کو دعوت دے رہے ہیں۔ بے روزگاری، فصلوں کی تباہی، بزنس کا دیوالیہ ہوجانا اور ملازمت کے حصول میں ناکامی ایسے اقتصادی مسائل ہیں جو خود کشی کے اسباب بن رہے ہیں۔ ہندوستان میں جہاں غربت و افلاس اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری مسائل کھڑے کررہے ہیں، وہیں فصلوں کی تباہی اور کسانوں کی خودکشیاں لمحہ فکریہ ہے، جس نے معاشرے کے ہر طبقے کو سوچنے اور غور فکر کرنے پر مجبور کردیا ہے۔خودکشی کرنے والا جہاں اپنے ہاتھوں اپنی دنیا ختم کرلیتا ہے وہ آخرت میں بھی سخت عذاب میں مبتلاء ہوگا۔

علامات

عام حالات میں ہمیں ان باتوں کا دھیان رکھنا چا ہئے تا وقت پر بیماری کا علم ہو سکے۔جیسے ہی کسی انسان میں یہ علامات نظر آئیں فورا ًکسی ماہر ڈاکٹر سے رابطہ کریں۔(1) نیند نہ آنا(2)بلڈ پریشر بڑھنا(3)تھکان محسوس ہونا(4)کھانہ ٹھیک سے ہضم نہ ہونا(5)خراب طبیعت(6)دل کا تیز دھڑکنا(7)سردرد(8)امیونٹی سسٹم کمزور ہونا(9)نا اُمیدی(10)کسی بھی کام میں دل نہ لگنا(11)چھوٹی چھوٹی بات پر غصہ آنا(12)چڑچڑا پن آنا(13)خودکشی کا خیال آنا۔ وغیرہ

عالمی صورت حال

دنیا میں خودکشی کے رونما ہونے والے واقعات کا اندازہ اس بات سے لگا یا جاسکتا ہے کہ عالمی ادارئہ صحت WHOکی رپورٹ کے مطابق ہر سال آٹھ لاکھ تک خودکشیاں ہوتی ہیں۔ یعنی ہر چالیس سکینڈ میں ایک آدمی خودکشی کرکے اپنی جان لیتا ہے۔عالمی سطح پر اگر خودکشی کے واقعات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یورپین ممالک اور یورپین یونین اس میں آگے ہیں جہاں سیکولر نظام قائم ہے جہاں ہرقسم کی مذہبی و شخصی آزادی ہے۔ جو ممالک غربت و افلاس سے دوچار نہیں ہیں بلکہ خوشحال ہیں۔ سر فہرست ممالک میں ساؤتھ کوریا، گیانا، لیتھونیا، سری لنکا وغیرہ ہیں۔

ہندوستان کی صورت حال

 ہماراملک ہندوستان بھی اس معاملے میں پیچھے نہیں گذشتہ چند سالوں میں حیرت انگیز طور پر خودکشی کے واقعات میں اضافہ ہواہے۔ عالمی ادارئہ صحت WHO کی تیارکردہ رپورٹ کے مطابق ہندوستان 12 نمبر پر ہے۔

اسلامی تعلیم

خودکشی کے بارے میں اسلامی تعلیمات کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ فعل حرام ہے۔ اِس کا مرتکب اللہ تعالیٰ کا نافرمان اور جہنمی ہے اور یہ ایسا کام ہے جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب بنتا ہے۔درحقیقت انسان کا اپنا جسم اﷲ عزوجل کی عطا کردہ امانت ہے۔ یہی وجہ ہے اسلام نے خودکشی کو حرام قرار دیا ہے۔ اسلام کسی انسان کو خود اپنی جان تلف کرنے کی ہرگزاجازت نہیں دیتا۔زندگی اور موت کا مالکِ حقیقی اﷲ تعالیٰ ہے۔ جس طرح کسی دوسرے شخص کو موت کے گھاٹ اتارنا پوری انسانیت کو قتل کرنے کے مترادف قرار دیا گیا ہے، اُسی طرح اپنی زندگی کو ختم کرنا یا اسے بلاوجہ تلف کرنا بھی اﷲ تعالیٰ کے ہاں ناپسندیدہ فعل ہے۔

 اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے :’’اور اپنے ہی ہاتھوں خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو، اور صاحبانِ اِحسان بنو، بے شک اﷲ اِحسان والوں سے محبت فرماتا ہے‘‘(البقرة، 2: 195)

امام بغوی نے اس بارے میں بیان فرماتے ہوئے لکھا ہے کہ:وقيل: أراد به قتل المسلم نفسهوقيل: أراد به قتل المسلم نفسه’’اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد کسی مسلمان کا خودکشی کرنا ہے۔‘‘(بغوی، معالم التنزيل، 1: 418)

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ایک اور مقام پر فرماتا ہے:’’اور اپنی جانوں کو مت ہلاک کرو، بے شک اﷲ تم پر مہربان ہے اور جو کوئی تعدِّی اور ظلم سے ایسا کرے گا تو ہم عنقریب اسے (دوزخ کی) آگ میں ڈال دیں گے، اور یہ اﷲ پر بالکل آسان ہے‘‘(النساء، 4: 29، 30)

امام فخر الدین رازی مصنف تفسیر کبیر اپنی تفسیر میں بیان فرماتے ہیں:

{وَلاَ تَقْتُلُواْ أَنفُسَكُمْ} يدل علی النهی عن قتل غيره وعن قتل نفسه بالباطل’’اور اپنی جانوں کو مت ہلاک کرو۔ یہ آیت مبارکہ کسی شخص کو ناحق قتل کرنے اور خودکشی کرنے کی ممانعت پر دلیل شرعی کا حکم رکھتی ہے۔‘‘(رازی، التفسير الکبير، 10: 57)

حدیث نبوی میں خودکشی کی ممانعت :

عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال : قال رسول ﷺ من قتل نفسہ بحدیدۃ فحدیدتہ فی یدہ یتوجہ بھا فی بطنہ فی نار جھنم خالدا مخلدا فیھا ابدا، ومن شرب سما فقتل نفسہ فھو یتحساہ فی نار جھنم خالدا مخلد ا فیھا ابد، ومن تردی من جبل وقتل نفسہ فھو یتردی فی نار جھنم خالدا مخلدا فیھا ابدا۔

’’راوی حدیث حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسولؐ نے فرمایا :جو شخص کسی لوہے سے اپنے آپ کو قتل کرلے تو وہ جہنم میںہوگا، اس کے ہاتھ میں لوہا ہوگا جس وہ اپنے پیٹ میں ہمیشہ ہمیش بھونپتا رہے گا، اور جو زہر پی کر اپنے آپ کو ہلاک کرلے تو وہ جہنم میں ہوگا اور ہمیشہ ہمیش زہر پیتا رہے گا اور جو پہاڑ سے گرکر کودکشی کرلے وہ جہنم ہوگا اور برابر گرتا رہے گا۔‘‘

فَإِنَّ لِجَسَدِکَ عَلَيْکَ حَقًّا وَإِنَّ لِعَيْنِکَ عَلَيْکَ حَقًّا.

’’تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری آنکھوں کا تم پر حق ہے۔‘‘

(بخاری، الصحيح، کتاب الصوم، باب حق الجسم فی الصوم)

یہ حکم نبوی واضح طور پر اپنے جسم و جان اور تمام اعضاء کی حفاظت اور ان کے حقوق ادا کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود کشی جیسے بھیانک اور حرام فعل کے مرتکب کو فِي نَارِ جَهَنَّمَ يَتَرَدَّی فِيْهِ خَالِدًا مُخَلَّدًا فِيْهَا أَبَدًا (وہ دوزخ میں جائے گا، ہمیشہ اس میں گرتا رہے گا اور ہمیشہ ہمیشہ وہیں رہے گا) فرما کر دردناک عذاب کا مستحق قرار دیا ہے۔ہر انسان کو سب سے زیادہ عزیز اس کی زندگی ہوتی ہے۔ کہا جاتا ہے ’’ جب تک جان ہے جہان ہے ‘‘ لیکن لوگوں کی ایک لمبی قطار ہے جو سانس لینے کے باوجود حقیقی معنوں میں مردہ ہیں، جو گردش حالات کے تھپیڑوں سے گھبرا کر اپنے اعزاء و اقارب سے منہ پھیر کر ایسی جگہ جانا چاہتے ہیں جہاں سے واپسی کا راستہ مسدود ہے، جسے خودکشی کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔

 حدیث نبویؐ ہے :ان اللہ یدنی المؤمن فوضع علیہ کنفہ و یسترہ فیقول اتعرف ذنب کذا، اتعرف ذنب کذا فیقول نعم، ای رب حتی اذا قررہ بذنوبہ، و رای فی نفسہ انہ ھلک قال : سترتھا علیک فی الدنیا وانا اغفرھا لک الیوم فیعطی بہ کتاب حسناتہ۔ واما الکافر والمنافقون: ’’ وَیَقُولُ الأَشْہَادُ ہَـؤُلاء الَّذِیْنَ کَذَبُواْ عَلَی رَبِّہِمْ أَلاَ لَعْنَۃُ اللّہِ عَلَی الظَّالِمِیْن ‘‘’’اللہ تعالیٰ مومن کو قریب کرے گا، اس کے اوپر اپنا جانب رکھے گا، اس کو چھپائے گا اور پوچھے گا کیا تمہیں یہ گناہ معلوم ہے، کیا تم اس گناہ کو جانتے ہو، تو وہ کہے گا،ہاں! اے میرے رب،جب وہ اپنے تمام گناہوں کو اقرار کرلے گا اور خیال کرے گا کہ وہ ہلاک ہوگیا تو اللہ کہے گا، میں نے دنیا میں ان گناہوں کی ستر پوشی کی لہذا آج میں تمہارے لیے ان کو معاف کررہاہوں، اور اسے اس کا نامہ اعمال دے دیا جائے گا۔ جہاں تک کافر اورمنافق تو ان کے بارے میں (سارے گواہ کہیں گے کہ یہ وہ ولوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار پر جھوٹ باندھا، خبردار ہو کہ اللہ کی لعنت ہے ظالموں پر۔ )‘‘

یہ وہ اسلام کے بنیادی عقائد ہیں جن پر ایمان رکھنے والا شخص خودکشی کرنا تو درکنار خودکشی کا تصور یا اس جیسے حرکات و سکنات اس کے حاشیہ خیال میں بھی نہیں آئے گا۔ یہی وجہ کہ اسلامی ممالک میںجو ان عقائد پر ایمان رکھتے ہیں خودکشی کے واقعات نسبتا بہت کم واقع ہوتے ہیں۔صبر سب سے بڑی طاقت ہے۔پورے عزم و ارادے اور استقامت و پامردی کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرنے کا نام صبر ہے۔ صبر مصائب و مشکلات کا سامنا کرنے کے لیے سب سے بڑی طاقت ہے۔ یہ ہر طرح کے غم ودکھ کا مقابلہ کرنے کا جوش و لولہ پیدا کرتا ہے، اس کا پیکر مصائب و مشکلات کے طوفان میں پہاڑ کی طرح ثابت قدم نظر آتا ہے، یہ مضبوط انسان کی پہچان ہے جب کہ نوحہ و ماتم کناں ہونا کمزوری و بزدلی کی دلیل ہے۔ اسلام کی یہی تعلیم ہے کہ ہرطرح کے دکھ سکھ میں مرض و موت، یاروں کے بچھڑنے کا غم، بزنس کا دیوالیہ، فصلوں کی تباہی وغیرہ میں صبر کا دامن لازم پکڑا جائے۔ ایسے لوگوں کے ساتھ ہمیشہ اللہ کی نصرت و مد د ہوتی ہے :

 یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ اسْتَعِیْنُواْ بِالصَّبْرِ وَالصَّلاَۃِ إِنَّ اللّہَ مَعَ الصَّابِرِیْن۔

(سورۃ البقرۃ :۱۵۳)

’’اے ایمان والو!صبر اور نماز کے ذریعہ مدد چاہو، اللہ تعالیٰ صبر والوں کا ساتھ دیتا ہے۔‘‘

صبر سے متصف لوگوں کی قرآن و احادیث میں تعریف کی گئی ہے : وَالصَّابِرِیْنَ فِیْ الْبَأْسَاء والضَّرَّاء وَحِیْنَ الْبَأْسِ أُولَـئِکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوا وَأُولَـئِکَ ہُمُ الْمُتَّقُون۔(سورۃ البقرۃ:۱۷۷)’’تنگ دستی، دکھ اور لڑائی کے وقت صبر کرے، یہی سچے لوگ ہیں اور یہی پر ہیز گار ہیں۔ ‘‘

حدیث نبویؐ ہے : عجبا لامر المؤمن، ان امرہ کلہ خیر لیس ذلک لاحد الا المؤمن ان اصابتہ سرا ء شکر فکان خیرا لہ وان اصابتہ ضراء صبر فکان خیرا لہ ’’مومن کا معاملہ بڑا عجیب ہے، اس کے ہر کام میں خیر ہے، یہ صرف مومن ہی کے لیے ہے، اگر اسے خوشی نصیب ہوتی ہے تو وہ اللہ کا شکرگزار ہوتا ہے اور اگر تکلیف پہنچتی ہے تو وہ صبر کرتا ہے جو اس کے لیے بہتر ہے۔ ‘‘

اطمینان قلب کے ذرائع:قرآن کریم سے تعلق

دنیا کے الجھنوں سے مضطرب دلوں، پیاروں سے بچھڑنے والوں، غم کے ماروں اور چین و سکون کے متلاشیوں کے لیے قرآن کریم ایسا ذہنی و قلبی اطمینان و سکون فراہم کرتا ہے جو اس کے علاوہ کہیں نہیں مل سکتا ہے۔یہ جہاں دھوکہ کھائے ہوئے لوگوں کے لیے باوفا دوست ہے وہیں امراض و مشکلات اور گردش ایام کے کھائے ہوئے ٹھوکروںسے چور کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، جملہ امراض عوارض سے نجات دہندہ ہے۔ ارشاد ہے :

وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا ہُوَ شِفَاء وَرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ وَلاَ یَزِیْدُ الظَّالِمِیْنَ إَلاَّ خَسَارا۔ (سورۃ بنی اسرائیل: ۸۲)’’یہ قرآن جو ہم نازل کررہے ہیں مومنوں کے لیے تو سراسر شفا اور رحمت ہے۔ ہاں ظالموں کو بجز نقصان کے اور کوئی زیادتی نہیں ہوتی۔ ‘‘

یَا أَیُّہَا النَّاسُ قَدْ جَاء تْکُم مَّوْعِظَۃٌ مِّن رَّبِّکُمْ وَشِفَاء لِّمَا فِیْ الصُّدُورِ وَہُدًی وَرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْن۔(سورۃ النساء:۲۹)

’’اے لوگو!تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک ایسی چیز آئی ہے جو نصیحت ہے اور دلوں میں جوروگ ہیں ان کے لیے شفاہے اور رہنمائی کرنے والی ہے اور رحمت ہے ایمان والوں کے لیے۔‘‘

یہ جہاں جسمانی امراض کے لیے نسخہ شفا ہے وہیں صدور و قلوب کے ہر شبہات و شہوات کا ازالہ کرنے والاہے۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ قرآن مجید ایسے دلائل و براہین سے پر ہے جو علم تصور اور ادراک کے ذریعہ سارے فاسد شبہات کو ختم کردیتے ہیں۔ اس میں ایسی حکمت و موعظت اور قصص ہیں جو ترغیب کے ذریعہ سے دلوں کا اصلاح کرتے ہیں۔ جو دل کو نفع بخش عمل کی طرف راغب اور مضر عمل سے نفرت دلاتے ہیں، جس کے سبب ایک باغی، راہ راست کو ناپسند کرنے والا دل بغاوت کو ترک کر کے راہ راست کا خواہاں ہوجاتا ہے۔ وہ فرماتے ہیں اگر کوئی اپنے دل کا اصلاح کرنا چاہے تو وہ اسی طرح فطرت کی طرف لوٹ آئے گا جس طرح بدن مرض کے بعد حالت طبعی میں لوٹ آتا ہے۔

یہی وجہ کہ صحابہ کرام اور سلف صالحین تلاوت قرآن کے ذریعہ ذہنی اضطراب دور کرتے تھے اور اپنی بیماروں کا علاج کیا کرتے تھے۔

حرف آخر

اسلام میں زندگی اللہ رب العالمین کی ایک بیش بہا نعمت سمجھی جاتی ہے، یہ ایسی نعمت ہے جو صرف ایک بارنصیب ہوتی ہے، زندگی کے گردش حالات اور اس کے موجوں کے تھپیڑو ں سے گھبرا کر خود اپنے ہاتھوں اپنی جان گنوادینا حماقت و بے وقوفی ہے۔ اگر اس کے دامن میں کئی محرومیاں، پریشانیاں اور دکھ ہیں تو اس کی نعمتوں، محبتوں کا بھی انسان پر اثر ہے۔پس یقینا مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔ بے شک مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔(سورۃ الشرح:۵۔۶

اگر ہم خود اپنے ہنر سے سماج و معاشرہ کی چکڑ سے نکل کر اپنی دنیا آپ سجانا چاہیں، اپنی خواہشات کو مختصر کردیں، اپنی ضروریات کی فہرست چھوٹی کردیں، اللہ کی دی ہوئی نعمتوں پر قناعت کرنا سیکھ لیں اور اپنے حال پر مطمئن ہوجائیں تو ایک حسین و جمیل دنیا کی تخلیق کرسکتے ہیں اور فرحت و انبساط، چین و سکون کے ساتھ زندگی کا لطف اٹھا سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ خواہشات اور ہوس کی دنیا میں ساری نعمتوں کی فراوانی کے باوجود چین و سکون اور اطمینان نصیب نہیں ہوتی۔

تازہ ترین

متعلقہ پوسٹس

امام وقت کی آواز

حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزفرماتے ہيں: لوگ عورتوں کے حقوق ادا نہيں کرتے، وارثت کے حقوق۔ اور ان کا شرعي حصہ نہيں ديتے اب بھي يہ بات سامنے آتي ہے برصغير ميں اور جگہوں پر بھي ہوگي کہ عورتوں کو ان کا شرعي حصہ نہيں ديا جاتا۔ وراثث ميں ان کو جو اُن کا حق بنتاہے نہيں ملتا۔ اور يہ بات نظام کے سامنے تب آتي ہے جب بعض عورتيں وصيت کرتي ہيں تو لکھ ديتي ہيں مجھے وراثت ميں اتني جائيداد تو ملي تھي ليکن مَيں نے اپنے بھائي کو يا بھائيوں کو دے دي اور ا س وقت ميرے پاس کچھ نہيں ہے۔ اب اگر آپ گہرائي ميں جا کر ديکھيں،جب بھي جائزہ ليا گيا تو پتہ يہي لگتا ہے کہ بھائي نے يا بھائيوں نے حصہ نہيں ديا اور اپني عزت کي خاطر يہ بيان دے د يا کہ ہم نے دے دي ہے۔ (خطبات مسرور جلد1 صفحہ نمبر115-116))

کلام الامام المھدی ؑ

حضرت اقدس مسيح موعود عليہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہيں کہ: اىک شخص اپنى منکوحہ سے مہر بخشوانا چاہتا تھا مگر وہ عورت کہتى تھى تو

انفاخ النبی ﷺ

حضرت جابر بن عبداللہؓ بيان کرتے ہيں کہ حضرت سعد بن ربيع کي بيوي اپني دونوں بيٹيوں کے ہمراہ آنحضرتؐ کے پاس آئيں اور عرض کيا کہ يا رسول اللہؐ ! يہ دونوں سعد بن ربيعؓ کي بيٹياں ہيں جو آپؐ کے ساتھ لڑتے ہوئے احد کے دن شہيد ہو گئے تھے۔ اور ان کے چچا نے ان دونوں کا مال لے ليا ہے اور ان کے ليے مال نہيں چھوڑا اور ان دونوں کا نکاح بھي نہيں ہو سکتا جب تک ان کے پاس مال نہ ہو۔ آپؐ نے فرمايا اللہ تعاليٰ اس کے بارے ميں فيصلہ فرمائے گا۔ اس پر ميراث کے احکام پر مشتمل آيت نازل ہوئي۔ پھر رسول اللہؐ نے چچا کو بلوايا اور فرمايا کہ سعد کي بيٹيوں کو سعد کے مال کا تيسرا حصہ دو اور ان دونوں کي والدہ کو آٹھواں حصہ دو اور جو بچ جائے وہ تمہارا ہے                                                                                                                            (سنن الترمذي، کتاب الفرائض، باب ما جاء في ميراث البنات)