کُلُّ عَامٍ وَأَنْتُمْ بِخَیرٍ
ہر قوم اور تہذیب اپنے مخصوص انداز میں نئے سال کا استقبال کرتی ہے، جہاں دنیا داروں کے لیے یہ موقع جشن، خوشیوں اور تفریحی سرگرمیوں کا ہوتا ہے، وہیں احمدی مسلمان اسے روحانی تجدید اور خود احتسابی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔دنیاوی معاشروں میں نئے سال کی تقریبات اکثر ظاہری خوشیوں تک محدود رہتی ہیں۔ نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میں آتش بازی کا شاندار مظاہرہ، نیویارک کے ٹائمز اسکوائر پر بال ڈراپ، اسپین میں بارہ انگور کھانے کی رسم، یونان میں انار پھوڑنے کی روایت، اور جاپان میں گھنٹیاں بجانا ۔ اسی طرح لاطینی امریکہ میں خالی سوٹ کیس اور جنوبی افریقہ میں پرانا فرنیچر پھینک کر گزرے وقت سے نجات کی تمنا کی جاتی ہے۔
غرض یہ تمام رسومات خوشحالی کی تمنا اور کامیابی کی امیدیں پیدا کرنے کی غرض سے ادا کی جاتی ہیں۔اس کے برعکس، احمدیہ جماعت کے نزدیک نیا سال محض جشن یا تفریح کا نام نہیں بلکہ زندگی کا ایک نیاموڑ ہے، جس میں روحانی ترقی، اصلاحِ نفس، اور خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے سنجیدگی کے ساتھ غور وفکر کرنے کا موقع میسر آتا ہے۔ ہمارے پیارے امام حضرت مرزا مسرور احمد صاحب خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نئے سال کے موقع پر احباب جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
’’ میں یہ بھی کہوں گا کہ ایک دوسرے کو مبارکباد دینے کا فائدہ ہمیں تبھی ہو گا جب ہم اپنے یہ جائزے لیں کہ گزشتہ سال میں ہم نے اپنے احمدی ہونے کے حق کو کس قدر ادا کیا ہے اور آئندہ کے لئے ہم اس حق کو ادا کرنے کے لئے کتنی کوشش کریں گے۔۔۔۔۔ واضح ہو کہ ہر اس شخص کے لئے جو احمدیت میں داخل ہو تا ہے اور احمدی ہے یہ معیار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے خود مہیا فرما دئیے ہیں، بیان فرما دئیے ہیں اور اب تو نئے وسائل اور نئی ٹیکنالوجی کے ذریعہ سے ہر شخص کم از کم سال میں ایک دفعہ خلیفۂ وقت کے ہاتھ پر یہ عہد کرتا ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے بیان فرمودہ معیاروں کو حاصل کرنے کے لئے بھرپور کوشش کرے گا۔ اور ہمارے لئے یہ معیار حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے شرائط بیعت میں کھول کر بیان فرما دئیے ہیں۔ کہنے کو تو یہ دس شرائط بیعت ہیں لیکن ان میں ایک احمدی ہونے کے ناطے جو ذمہ داریاں ہیں ان کی تعداد موٹے طور پر بھی لیں تو تیس سے زیادہ بنتی ہے۔ پس اگر ہم نے اپنے سالوں کی خوشیوں کو حقیقی رنگ میں منانا ہے تو ان باتوں کو سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ جو شخص احمدی کہلا کر اس بات پر خوش ہو جاتا ہے کہ میں نے وفات مسیح کے مسئلے کو مان لیا یا آنے والا مسیح جس کی پیشگوئی کی گئی تھی اس کو مان لیا اور اس پر ایمان لے آیا تو یہ کافی نہیں ہے۔ بیشک یہ پہلا قدم ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہم سے توقع رکھتے ہیں کہ ہم نیکیوں کی گہرائی میں جا کر انہیں سمجھ کر ان پر عمل کریں اور برائیوں سے اپنے آپ کو اس طرح بچائیں جیسے ایک خونخوار درندے کو دیکھ کر انسان اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرتا ہے۔ اور جب یہ ہو گا تو تب ہم نہ صرف اپنی حالتوں میں انقلاب لانے والے ہوں گے بلکہ دنیا کو بدلنے اور خدا تعالیٰ کے قریب لانے کا ذریعہ بن سکیں گے۔‘‘
(خطبہ جمعہ 2 جنوری 2015ء)
پس احمدیت محض ایک نام نہیں بلکہ اعمال اور کردار میں تبدیلی کا پیغام ہے۔ لہذا نیا سال ایک احمدی مسلمان کے لیے اصلاح اور اپنے عہد بیعت کی تجدید کا وقت ہے۔ دنیا داروں کے برعکس، جماعت احمدیہ نئے سال کو بامقصد، گہرے اور روحانی تجربے میں بدلتے ہیں۔ یہ خوشی اللہ تعالیٰ کی قربت، اپنی زندگیوں کی اصلاح، اور جماعت اور انسانیت کی خدمت کے ذریعے حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنی زندگیوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی توقعات کے مطابق ڈھال سکیں، اور اس نئے سال کو اپنی روحانی اور اجتماعی ترقی کا ذریعہ بنا سکیں۔ آمین۔
(سلیق احمد نائک)