فَاسْتَبِقُواْ الْخَيْرَاتِ

محمد شریف کوثراستاد جامعہ احمدیہ قادیان

وَلِكُلٍّ وِّجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّيْهَا فَاسْتَبِقُواْ الْخَيْرَاتِ أَيْنَ مَا تَكُونُواْ يَأْتِ بِكُمُ اللّٰهُ جَمِيعاً إِنَّ اللّٰهَ عَلیٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ۔(البقرۃ:149)

آج کل دنیا کے اور اس میں رہنے والے دنیاوی لوگوں کے حالات ایسے بن چکے ہیں کہ ہر کوئی دنیاوی کاموں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ مذکورہ بالا آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہر شخص کا کوئی نہ کوئی مطمح نظر ہوتا ہے جو ہر وقت اس کی آنکھوں کے سامنے رہتا ہے اور اُسے پورا کرنے کے لئے وہ اپنی تمام مساعی صرف کر دیتا ہے۔ کبھی وہ تجارت میں ترقی کرنا اپنا مقصد قرار دیتا ہے، کبھی سائنس میں ترقی کبھی مال ودولت کمانے کو اپنا مقصد قرار دیتا ہے تو کوئی بیواؤں اور یتیم بچوں کی خدمت اور کوئی دین اور مذہب کی اشاعت کو اپنا مقصد بنا لیتا ہے۔ الغرض ہر انسان کسی نہ کسی مقصد کو اپنے سامنے رکھتا ہے اور اسکے حصول کے لئے وہ ہر قسم کی قربانیوں اور جد وجہد کرتا ہے۔  نکمے سے نکمے انسان کو بھی دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ وہ ہر وقت کچھ نہ کچھ کرتا رہتا ہے، کیوں کہ فراغت انسانی فطرت میں داخل ہی نہیں ہے۔

 قرآن کریم نے کئی اور مقامات پر بھی خدا تعالیٰ سے مغفرت اور اس کا رحم پانے میں سب سے آگے بڑھنے کی تلقین فرمائی ہے۔ لیکن افسوس کہ آج کے اس دور میں ہم ایک دوسرے سے بھلائی میں آگے بڑھنے کے بجائے ظاہری شان و شوکت اور مال میں مقابلہ کرتے ہیں جو بالآخر ہمیں بربادی تک لے جاتا ہے۔ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی ﷺ کا پاکیزہ اسوہ اس میدان میں ہمارے لئے سب سے بڑھ کر قابلِ تقلیدہے۔ آپ ﷺ ہمیشہ نیک کام میں پہل کرتے اور پوری دیانتداری اور خلوص کے ساتھ اسے سرانجام دیتے۔ اسی لئے آپ ﷺنے ہمیں السلام علیکم میں پہل کی نصیحت فرمائی اور اپنے روٹھے ہوئے بھائی کے ساتھ صلح کا ہاتھ پہلے بڑھانے کی تعلیم دی۔

اسلام ایک ایسا عظیم مذہب ہے کہ اُس نے مسلمانوں کو یہ بھی بتا دیا کہ آپ لوگوں کا زندگی کا مقصد کیا ہونا چاہئے۔ بجائے دنیاوی کاموں کو اپنا نصب العین بنانے کے اسلام نے یہ کہا ہے کہ فاسْتَبِقُواْ الْخَيْرَات   کہ نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھو یہی تمہارے زندگی کا حقیقی مقصد ہونا چاہئے۔

اس آیت میں انسان کی ذاتی اور جماعتی و قومی زندگی میں ترقی کا بھی راہنما اصول بیان ہوا ہے اور وہ ہرنیکی اور اچھائی کے میدان میں دوسروں سے آگے بڑھنے کی نصیحت و تلقین اور عمل ہے۔ بالخصوص مسلمانوں کو نیکی اور بھلائی میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کا درس دیا گیا ہے۔ اور اسی اصول پر چلتے ہوئے انسان اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر سکتا ہے، اور اس جہاں میں بھی اور اگلے جہاں میں بھی کامیابی حاصل کر سکتا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اپنے قول و فعل سے ہمیں نیکیوں میں بڑھنے اور ترقی کرنے کی تعلیم دی ہے۔ آپ فرماتے ہیں:

’’سابق بالخیرات بننا چاہئے ایک ہی مقام پر ٹھہر جانا کوئی اچھی صفت نہیں ہے۔ دیکھو ٹھہرا ہوا پانی آخرگندا ہوجاتا ہے۔ کیچڑ کی صحبت کی وجہ سے بدبودار اور بدمزہ ہوجاتا ہے۔ چلتا پانی ہمیشہ عمدہ، ستھرا اور مزیدار ہوتا ہے۔ اگرچہ اس میں بھی نیچے کیچڑ ہو۔ مگر کیچڑ اس پر کچھ اثر نہیں کرسکتا۔ یہی حال انسان کا ہے کہ ایک ہی مقام پر ٹھہر نہیں جانا چاہئے۔ یہ حالت خطرناک ہے۔ ہر وقت قدم آگے ہی رکھنا چاہئے۔ نیکی میں ترقی کرنی چاہئے۔ ورنہ خدا تعالیٰ انسا ن کی مددنہیں کرتا۔ اور اس طرح سے انسان بے نور ہوجاتا ہے۔ جس کا نتیجہ آخر کار بعض اوقات ارتداد (دین سے پھر جانا) ہوجاتا ہے۔ اس طرح سے انسان دل کا اندھا ہوجاتا ہے۔ خدا تعالیٰ کی نصرت انہی کے شامل حال ہوتی ہے جو ہمیشہ نیکی میں آگے ہی آگے قدم رکھتے ہیں ایک جگہ نہیں ٹھہر جاتے اور وہی ہیں جن کا انجام بخیر ہوتا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ ۴۵۶)

آج سے 14سو سال قبل صحابہؓ کی نجی و مذہبی زندگی کو اگر ہم تاریخ کے آئینہ میں دیکھیں تو نیکیوں کے میدان میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی دوڑ لگی ہوئی نظر آتی ہے۔ کہیں پہلی صف میں بیٹھنے کے ثواب کے حصول کی خاطر اتنے صحابہؓ جمع ہو جاتے ہیں کہ قرعہ اندازی کروانے کا اظہار ہوتا ہے۔

کہیں اذان دینے کے شوق میں صحابہؓ میں قرعہ اندازی کروانی پڑتی ہے اور جب غریب اور مفلس صحابہؓ آنحضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرتے ہیں کہ صاحبِ ثروت صحابہؓ مالی قربانی کرتے ہیں ہم نہیں کر سکتے تو آنحضور ﷺ نے فرمایا ہر نماز کے بعد 33 ،33 دفعہ سبحان اللّٰہ، الحمدللّٰہ اور 34 مرتبہ اللّٰہ اکبر پڑھ لیا کرو تو تمہیں بھی دولت مند صحابہؓ کے برابر ثواب مل جایا کرے گا۔ جب یہ ارشاد  دولت مند صحابہؓ کے کانوں میں پڑا تو انہوں نے بھی ان تسبیحات کا ورد شروع کر دیا۔ اس پر غریب صحابہؓ نے دوبارہ آنحضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی تو آنحضور ﷺ نےفرمایا۔یہ اللہ تعالیٰ کافضل ہے جسے چاہتا ہے دیتا ہے (میں اس فضل کو کیسے روک سکتا ہوں)

گویا نیکیوں میں آگے بڑھنا بھی اللہ کا فضل ہے جس کے حصول کے لئے اس میدان میں کوشاں رہنا چاہئے۔

صحابہؓ تو آنحضور ﷺ کے ارشاد سُننے کے لئے ہر وقت مشّاق نظر آتے تھے۔ وہ تو دیوانوں کی طرح اپنے ساتھیوں سے پوچھا کرتے تھے کہ کوئی تازہ ارشاد ہو تو بتاؤ تا اس پر عمل کیا جائے۔ مدینہ کے نواح میں بسنے والے صحابہؓ نے ڈیوٹیاں لگا رکھی تھیں کہ فلاں شخص فجر کی نماز اور فلاں شخص ظہر کی نمازاور فلاں فلاں باقی نمازوں پر مسجد نبوی میں حاضر ہوگا، اور جو ارشاد ہو اس کو مدینہ کے نواح میں بسنے والے صحابہ تک پہنچائے گا تا وہ مدینہ کے صحابہ سے پیچھے نہ رہ جائیں۔

حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ میں مسابقت فی الخیرات کی دوڑ ہر میدان میں نظر آتی ہے۔ اشاعت اسلام کے لئے حضرت عمرؓ گھر کا نصف اثاثہ لے آتے ہیں اور یہ گمان کرتے ہیں کہ آج میں اپنے بھائی حضرت ابوبکرؓ کو مات دے دوں گا مگر تھوڑی دیر بعد حضرت ابوبکرؓ گھر کا سارا مال اُٹھا لاتے ہیں اور پوچھنے پر فرماتے ہیں ’’میں اللہ اور اس کا رسولؐ گھر چھوڑ آیا ہوں۔‘‘

مجمع الزوائد میں یہ واقعہ یوں لکھا کہ ایک صبح فجر کی نماز کے بعد آنحضور ﷺ نے صحابہؓ سے پوچھا ۔آج روزہ کس نے رکھا ہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کی۔ میں نے رات ہی نفلی روزہ کی نیت کر لی تھی۔ پھر پوچھا مریض کی عیادت کس نے کی ہے؟ حضرت عمرؓ کہنے لگے صبح کی نماز کے بعد ابھی توہم یہیں ہی بیٹھے ہیں۔حضرت ابوبکرؓنے عرض کی میں راستے میں آتا ہوا حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ سے ان کی بیماری کا حال احوال پوچھ آیا ہوں۔ پھر پوچھا کسی نے مسکین کو کھانا کھلایا ہے۔ حضرت عمرؓ نے پھر وہی بات دہرائی جبکہ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا کہ میں جب مسجد میں داخل ہوا تو ایک سوالی کو کھڑا دیکھا تو اپنے بیٹے عبدالرحمٰن ؓ کے ہاتھ سے روٹی کا ٹکڑا لے کر اس سائل کو دے آیا ہوں۔ آنحضور ﷺ نے اس پر فرمایا اے ابوبکر!تمہیں جنت کی بشارت ہو۔ اس پر حضرت عمرؓنے لمبی سانس لی اور کہا وائے جنت تو مجھ سے دُور ہے۔ اس پر آنحضورﷺنے دُعا دی اللہ عمر پر رحم کرے اللہ عمر پر رحم کرے جب بھی وہ نیکی کا ارادہ کرتا ہے ابوبکر اس سے سبقت لے جاتا ہے۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت عمرؓ نے لمبی سانس لی اور کہا یہ بڈھا (پیار سے) کسی میدان میں آگے نہیں بڑھنے دیتا۔

اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں ایک دفعہ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کا آپس میں جھگڑا ہو گیا۔ جب وہ جُدا ہوئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو افسوس ہوا آپ اِس خیال سے کہ اگر رسول کریم  صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو کسی اور ذریعہ سے اس کی خبر ہوئی تو آپ کو تکلیف ہو گئی فوراً رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس پہنچے اور عرض کیا یا رسول اللہ! آج ابوبکرؓ سے میرا جھگڑا ہو گیا تھا جس کا مجھے افسوس ہے ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو یہ بات سن کر ناراضگی کا اظہار فرمایا اور یہ بھی  فرمایا تم لوگ کیوں اُسے  (یعنی ابو بکرؓ کو ) تکلیف دینے سے باز نہیں آتے جب تم لوگ اسلام کا مقابلہ کر رہے تھے تو وہ مجھ پر ایمان لایا تھا۔ اور اس نے میرا ساتھ دیا تھا حضرت عمرؓ  ابھی معذرت ہی کر رہے تھے کہ حضرت ابوبکرؓ کو بھی خیال آیا کہ شاید حضرت عمرؓ میرے متعلق کوئی ایسی بات نہ کردیں جس سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مجھ سے ناراض ہو ں اس لئے وہ بھی دوڑ کر آئے کہ میں چل کر حقیقت حال بتائوں۔ کہ میرا نہیں بلکہ عمرؓ  کا قصور تھا۔ مگر جونہی آپ دروازہ پر داخل ہوئے آپ نے دیکھا کہ حضرت عمرؓ معذرت کر رہے ہیں اور رسول کریم  صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اُسی وقت ناراض ہو رہے ہیں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اُسی وقت دوزانو ہو کر بیٹھ گئے اور عرض کیا۔ یا رسول اللہ! فِدَاکَ اَبِیْ وَاُمِّیْ۔ قصور میرا ہی تھا۔ عمر کا قصور نہیں تھا۔ اس طرح آپ نے حضرت عمرؓ پر سے رسول کریم  صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ناراضگی کو دُور کرنے کی کوشش کی۔ یہ تھی اُن کی نیکی میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی رُوح کہ قصور حضرت عمرؓ کا ہے مگر معافی حضرت ابوبکرؓ مانگ رہے ہیں تاکہ حضرت عمرؓ پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ناراض نہ ہوں۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

’’درحقیقت اسلام اور دوسرے مذاہب میں جہاں اور بہت سے امتیازات ہیں جو اُس کی فضیلت کو نمایاں طور پر ثابت کرتے ہیں وہاں ایک بہت بڑا فرق یہ بھی ہے کہ دوسرے مذاہب صرف نیکی کی طرف بلاتے ہیں مگر اسلام استباق کی طرف بلاتاہے۔‘‘

نیز حضور مزید افراد جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

 ’’ہماری جماعت کو بھی چاہیے کہ ہم میں سے ہر فرد اپنے نفس کو ٹٹولتا رہے اوردین کے ساتھ ایک گہری محبت اور شیفتگی پیدا کرنے کی کوشش کرے۔ اور سوتے جاگتے، اٹھتے، بیٹھتے بس یہی ایک مقصد اپنے سامنے رکھے کہ ہم نے اسلام کو دنیا میں غالب کرنا ہے۔ جب تک یہ روح ہمارے اندر پیدا نہیں ہوتی اُس وقت تک ہم اپنے مقصد میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔‘‘ (تفسیر کبیر، جلد ۲، صفحہ ۲۵۶)

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس نصرہ اللہ تعالیٰ نصرا عزیزا خدام کو نصیحت فرماتے ہیں:’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک مومن کا کام ہر قسم کی نیکیوں میں آگے بڑھنا ہے۔ ایک احمدی نوجوان یا شخص اگر اپنی دنیاوی تعلیم اور تحقیق میں آگے بڑھ گیا ہے جو انسانیت کے لئے مفید اور کار آمد بھی ہے لیکن اگر اُس کا خدا تعالیٰ کے حق ادا کرنے کا خانہ خالی ہے تو فاستبقوا الخیرات پر عمل کرنے والا نہیں ہے۔ اگر اپنے علم کے اعلیٰ مقاصد کے حصول میں ترقی کر رہا ہے اور بندوں کے حق ادا نہیں کر رہا تو وہ فاستبقوا الخیرات پر عمل کرنے والا نہیں ہے۔ پس ہمیں اُن باتوں کی تلاش بھی کرنی پڑے گی جن کو خدا تعالیٰ نے خیرات اور نیکیوں میں شمار فرمایا ہے کیوں کہ ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم نے اس زمانے کے امام کو مان کر ہر قسم کی نیکیوں میں آگے بڑھنا ہے اور جو ترقی ہمیں خدا تعالیٰ اور اُس کے بندوں کے حقوق ادا کرنے سے روکتی ہے، جو ترقی ہمیں دین کے حق ادا کرنے سے روکتی ہے وہ ترقی ہمیں خدا تعالیٰ اور اُس کے بندوں کے حقوق ادا کرنے سے روکتی ہے، جو ترقی ہمیں دین کے حق ادا کرنے سے روکتی ہے وہ ترقی نہیں بلکہ جہالت ہے۔ ‘‘

(اختتامی خطاب برموقع سالانہ اجتماعات خدام الاحمدیہ جرمنی وبرطانیہ ۲۰۱۱)

ہم اپنی عمر کے اس مرحلہ میں ہیں جہاں جسمانی اور ذہنی قوت اپنے عروج پر ہوتی ہے۔ ہمیں چاہئے کہ اللہ اور اس کے رسول محمد مصطفی ﷺ کے تمام احکامات پر عمل کرتے ہوئے نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھیں۔ اللہ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔

تازہ ترین

متعلقہ پوسٹس

امام وقت کی آواز

حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزفرماتے ہيں: لوگ عورتوں کے حقوق ادا نہيں کرتے، وارثت کے حقوق۔ اور ان کا شرعي حصہ نہيں ديتے اب بھي يہ بات سامنے آتي ہے برصغير ميں اور جگہوں پر بھي ہوگي کہ عورتوں کو ان کا شرعي حصہ نہيں ديا جاتا۔ وراثث ميں ان کو جو اُن کا حق بنتاہے نہيں ملتا۔ اور يہ بات نظام کے سامنے تب آتي ہے جب بعض عورتيں وصيت کرتي ہيں تو لکھ ديتي ہيں مجھے وراثت ميں اتني جائيداد تو ملي تھي ليکن مَيں نے اپنے بھائي کو يا بھائيوں کو دے دي اور ا س وقت ميرے پاس کچھ نہيں ہے۔ اب اگر آپ گہرائي ميں جا کر ديکھيں،جب بھي جائزہ ليا گيا تو پتہ يہي لگتا ہے کہ بھائي نے يا بھائيوں نے حصہ نہيں ديا اور اپني عزت کي خاطر يہ بيان دے د يا کہ ہم نے دے دي ہے۔ (خطبات مسرور جلد1 صفحہ نمبر115-116))

کلام الامام المھدی ؑ

حضرت اقدس مسيح موعود عليہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہيں کہ: اىک شخص اپنى منکوحہ سے مہر بخشوانا چاہتا تھا مگر وہ عورت کہتى تھى تو

انفاخ النبی ﷺ

حضرت جابر بن عبداللہؓ بيان کرتے ہيں کہ حضرت سعد بن ربيع کي بيوي اپني دونوں بيٹيوں کے ہمراہ آنحضرتؐ کے پاس آئيں اور عرض کيا کہ يا رسول اللہؐ ! يہ دونوں سعد بن ربيعؓ کي بيٹياں ہيں جو آپؐ کے ساتھ لڑتے ہوئے احد کے دن شہيد ہو گئے تھے۔ اور ان کے چچا نے ان دونوں کا مال لے ليا ہے اور ان کے ليے مال نہيں چھوڑا اور ان دونوں کا نکاح بھي نہيں ہو سکتا جب تک ان کے پاس مال نہ ہو۔ آپؐ نے فرمايا اللہ تعاليٰ اس کے بارے ميں فيصلہ فرمائے گا۔ اس پر ميراث کے احکام پر مشتمل آيت نازل ہوئي۔ پھر رسول اللہؐ نے چچا کو بلوايا اور فرمايا کہ سعد کي بيٹيوں کو سعد کے مال کا تيسرا حصہ دو اور ان دونوں کي والدہ کو آٹھواں حصہ دو اور جو بچ جائے وہ تمہارا ہے                                                                                                                            (سنن الترمذي، کتاب الفرائض، باب ما جاء في ميراث البنات)