ہر چیز کے خزانے اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس رکھے ہیں

وَاِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا عِنْدَنَا خَزَاۗىِٕنُہٗ وَمَا نُنَزِّلُهُ إِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُومٍ

 (سورۃ الحجر آیت نمبر 22)

ترجمہ: اور کوئی چیز ایسی نہیں جس کے (غیر محدود) خزانے ہمارے پاس نہ ہوں۔ لیکن ہم اسے ایک معین اندازے سے ہی اتارا کرتے ہیں۔

اس آیت کی تفسیر میں سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں :

اس آیت میں ایک بہت بڑی صداقت بیان کی گئی ہے ۔اور پہلی آیت کی مزید تفصیل کی گئی ہے ہر چیز کے خزانے اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس رکھے ہیں اور ضرورت کے مطابق وہ انسانی ذہن کو ادھر منتقل کر دیتا ہے اور لوگ ان خزانوں سے فائدہ اُٹھالیتے ہیں ۔زمین میں سبھی کچھ تھا مگر ایک وقت تک انسان نے لوہے کا علم حاصل نہ کیا تھا ۔پھر لوہا نکلا اور اسے لوگوں نے خوب استعمال کیا مگر لوہا بےجان تھا ۔جب انسان کی ضرورت بڑھی اور اس نے دنیا میں کثرت سے پھرنا چاہا تو پتھر کے کوئلے اور بھاپ کی دریافت ہوئی اور بے جان لوہا جانداروں کی طرح کام کرنے لگا ۔ضرورت نے ترقی کی تو تار کی بجلی کی ایجاد ہوئی۔اس کے بعد بے تار کی بجلی کی ۔غرض ہر زمانہ کے مطابق زمین خزانے اگلتی چلی جاتی ہے ۔اسی طرح فرماتا ہے ۔الٰہی کلام کی بھی حفاظت کی جاتی ہے اس کے خزانے محفوظ رکھے جاتے ہیں اور زمانہ کی ضرورت کے مطابق نازل کئے جاتے ہیں ۔پس کلام الٰہی کو صرف ایک کتاب نہیں سمجھنا چاہئے کہ نازل ہو گئی اور پھر خدا تعالیٰ نے اس سے تعلق چھوڑ دیا۔بلکہ کلام الٰہی ایک دنیا ہے جو ہزاروں خزانوں پر مشتمل ہے جو مختلف زمانہ کے لوگوں کے لئے ہیں جب تک وہ خزانہ سب کا سب مستحقین میں تقسیم نہ ہو جائے اس کلام کو بے حفاظت کس طرح چھوڑا جا سکتا ہے ۔

 (تفسیر کبیر جلد 4، صفحہ نمبر 48، ایڈیشن 2004)

Leave a Reply

تازہ ترین

متعلقہ پوسٹس

نور کا راز

ایک دن کی بات ہے، 12 سالہ احمد اپنے کمرے میں بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے اپنے ابو سے ایک دن پہلے سوال کیا تھا:

سائنس کا سفر یونان سے بغداد تک

لفظ ’’ سائنس‘‘لاطینی زبان سے ماخوذ ہے، جس کے لغوی معنی ’’ علم‘‘کے ہیں۔ سائنس دراصل کائنات اور فطرت میں موجود قوانین وحقائق کے دریافت

علم حاصل کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں : ’’ رَبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ دعا سکھا