دنیا تیزی سے بدل چکی ہے۔ اب خیالات، نظریات، رجحانات
اور عقائد کی تشکیل کا سب سے تیز ذریعہ قلم اور کتاب نہیں، بلکہ موبائل اسکرین،
سوشل میڈیا فیڈز اور ڈیجیٹل ویڈیوز بن چکے ہیں۔ یہ وہ میدان ہے جہاں روزانہ کروڑوں
ذہنوں کو مخصوص سمت دی جاتی ہے، ان کے احساسات کو چھیڑا جاتا ہےاور ان کی ترجیحات
بدل دی جاتی ہیں۔ اس بدلتی دنیا میں ایک احمدی مسلمان کی ذمہ داری مزید بڑھ چکی
ہے۔
معاشرے میں ایک ایسا خاموش مگر خطرناک انقلاب آچکا ہے جو
بےحیا ویڈیوز، لغویات اور غیر اخلاقی مواد کو ’’ ترقی‘‘ اور ’’آزادی‘‘کے خوشنما الفاظ کے ساتھ عام کر رہا
ہے۔ ٹی وی اور انٹرنیٹ کا بے جا استعمال عبادات سے غفلت کا باعث بن چکا ہے۔ مؤمن
وہی ہے جو لغویات سے اعراض کرےلیکن آج نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد دن کا قیمتی وقت
محض scroll اور like کرنے میں گزار دیتی ہے۔
احمدی مسلمان کی شناخت محض کسی موبائل ایپ پر موجودگی سے
نہیں، بلکہ اُس کے استعمال کے طریقے سے ظاہر ہوتی ہے۔ اگر اُس کی پوسٹس میں دینی
اور اسلامی تعلیمات کا عکس ہوتو وہ حقیقی طور پر دورِ جدید میں حضرت مسیح موعودعلیہ
السلام کا سپاہی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں ہماری جماعت کے فائدہ کے
لئے جدید مواصلاتی نظام اور میڈیا جیسے ذرائع ابلاغ کی سہولیات مہیا کردی ہیں۔ دنیا
کے ہر کونہ میں اسلام کا پیغام پہنچانے کے لئے یہ ذرائع بہت اہم ثابت ہو رہے ہیں۔
تاہم موجودہ زمانہ تلوار کے جہادکے بجائے نفس کی اصلاح کےجہاد کا زمانہ ہے۔ نیکی کی
راہ پر اُسی صورت میں قائم رہا جاسکتاہےجب قرآن کریم کے احکامات پر عمل کیا جائے۔
اس مضمون کے حوالہ سے جذباتِ نفسانی پر قابو رکھنے اور غض بصر کی اہمیت بیان کرتے
ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں فرمایا:
’’ ہم احمدیوں کو ہمیشہ یہ یاد رکھناچاہئے کہ یہ زمانہ
بہت خطرناک زمانہ ہے۔ شیطان ہر طرف سے پُرزور حملے کر رہا ہے۔ اگر مسلمانوں اور
خاص طور پر احمدی مسلمانوں، مَردوں اور عورتوں، نوجوانوں سب نے مذہبی اقدار کو
قائم رکھنے کی کوشش نہ کی تو پھر ہمارے بچنے کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ ہم دوسروں سے
بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں ہوں گے کہ ہم نے حق کو سمجھا، حضرت مسیح موعود علیہ
السلام نے ہمیں سمجھایا اور ہم نے پھر بھی عمل نہ کیا۔ پس اگر ہم نے اپنے آپ کو
ختم ہونے سے بچانا ہے تو پھر ہر اسلامی تعلیم کے ساتھ پُراعتماد ہو کر دنیا میں
رہنے کی ضرورت ہے۔ ۔۔۔پس جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا کہ ہمیں خاص طور پر
نوجوانوں کو اللہ تعالیٰ کی تعلیم پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ دنیا سے متأثر ہو کر
اس کے پیچھے چلنے کی بجائے دنیا کو اپنے پیچھے چلانے کی ضرورت ہے۔ ‘‘
(خطبہ
جمعہ فرمودہ 20 ؍دسمبر 2013ءبمقام مسجد بیت الفتوح، لندن،مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل
10؍جنوری 2014ء)
جدید ایجادات اور مواصلاتی نظام کے غیر محتاط استعمال کے
نتیجہ میں دنیا کے ہر معاشرہ میں اخلاقی برائیوں میں ہوشربا اضافہ دیکھنے میں
آرہا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑا واضح فرمایا ہے کہ
اَلْحَیَآءُ شُعْبَۃٌ مِّنَ الْاِیْمَانِ
(مسلم،
کتاب الایمان، باب شعب الایمان وافضلھا… حدیث نمبر 59)
ترجمہ:حیا بھی ایمان کا ایک حصہ ہے۔
پس ہر احمدی نوجوان کو خاص طور پر یہ پیش نظر رکھنا
چاہئے کہ آج کل کی برائیوں کو میڈیا پر دیکھ کر اس کے جال میں نہ پھنس جائیں ورنہ
ایمان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ ایک حدیث میں آتا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:
’’
بےحیائی ہرمرتکب کوبدنمابنادیتی ہےاورشرم وحیا ہر حیادار کو حسن وسیرت بخشتا ہے
اور اسے خوبصورت بنا دیتا ہے۔ ‘‘
(ترمذی،
کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی الفحش والتفحش۔حدیث نمبر 1974)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو سوشل میڈیا کے مضرات سے محفوظ رکھے
اوراس کے تمام ترفوائد کو بروئے کار لاتے ہوئے دین اسلام کی اشاعت اوراپنے نفسوں کی
روحانی حالتوں کو بہتر بنانے کی توفیق عطا فرمائے۔
(سلیق
احمد نائک)