سید طالع احمد خاندان حضرت مسیح موعودؑ کے چشم و چراغ تھے اور دونوں جانب سے نجیب الطرفین تھے۔ افریقہ کی سرزمین پراپنے فرائض کی سرانجام دہی کے دوران انہوں نے جام شہادت نوش کیا جب ڈاکوؤں نے ان پر حملہ کیا۔ایک حدیث میں آیاہے کہ آخری زمانے میں ایک چھوٹی پنڈلیوں والا حبشی شخص کعبہ شریف کو منہدم کریگا۔خداتعالیٰ کے اولیٰ العزم خلیفہ حضرت مصلح موعودؓ نے اس خطرے کو بھانپتے ہوئےنیر احمدیت حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب نیر ؓ کو افریقہ بھجوایا تاکہ قبل اس کے کہ وہ شخص پیدا ہوپوراافریقہ اسلام احمدیت کی آغوش میں آئے اور کعبہ کے پرستار پیداہوں نہ کہ نعوذباللہ اس کے تباہ کار۔حضرت مصلح موعود کی فراست رنگ لائی اور ارض افریقہ کے طول و عرض میں توحید کے پرستار خدائے واحد ویگانہ کی صدائیں بلند کرنے لگے۔ اور تثلیث کے پیروکار جو اپنے زعم میں کعبۃاللہ پر تثلیث کے علم کو لہرانا چاہتے تھے شکست فاش سے دوچار ہوئے۔ اس بات کا اعتراف ہٹلر نے بھی اپنی کتاب ’’میری جدوجہد‘‘ میں کیاکہ افریقہ میں عیسائی مشنری مسلمانوں کے بالمقابل شکست کھارہے ہیں اور حضرت مصلح موعوؓ نے فرمایاکہ دراصل ہٹلر کے اس بیان میں عیسائیوں کے بالمقابل احمدیت کی کامیابیوں کا اعتراف ہے کیونکہ افریقہ میں سوائے احمدیت کے کوئی عیسائی مشنری کے بالمقابل نبردآزما نہیں ہے۔
ارض افریقہ سے تعلق رکھنے والے حضرت بلال ؓ نے توحید کی سربلندی کے لئے ناقابل فراموش قربانیاں پیش کیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے لئے اسی طرز کی قربانیوں کو ازسر نو پیش کرنے کے لئے جماعت آخرین یعنی احمدیت کے احباب عدیم المثال قربانیاں پیش کررہے ہیں ۔افریقہ میں جماعت احمدیہ کی زمین وسیع سے وسیع تر ہوتی جارہی ہے۔ان میں وہ خوش نصیب بادشاہ بھی شامل ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعودؑ کے کپڑوں سے برکت تلاش کی۔ بہر حال جماعت احمدیہ افریقہ کا قدم خلافت احمدیہ کے زیر سایہ ترقی کی طرف رواں دواں ہے۔ ہمارے امام عالی مقام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس نے مسند خلافت پر متمکن ہونے سے قبل کئی سال افریقہ میں گزارے اور پیار ے آقا نے ملک افریقہ کی ترقی میں گرانقدر خدمات سرانجام دیں ہیں ۔ان خدمات اور نصر ت جہاں سکیم کے تحت ہورہے کاموں کی کوریج کے لئے سید طالع مرحوم شہید افریقہ گئے ہوئے تھے۔ جہاں اپنے فرائض کی سرانجام دہی کے دوران انہیں شہادت کا مقام حاصل ہوا۔شہید مرحوم کی عظمت اور قربانی کتنی عظیم تھی کہ پیارے آقا نے پورا خطبہ جمعہ انکے اوصاف حمیدہ کے تذکرہ پر ارشاد فرمایا۔چنانچہ شہید مرحوم کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے حضور انور نے فرمایاکہ ؛
’’ایک ہیرا تھا جو ہم سے جدا ہو گیا ہے اللہ تعالیٰ ایسے وفا شعار، خلافت سے وفا اور اخلاص کا تعلق رکھنے والے اور دین کو دنیا پر مقدم رکھنے والے جماعت کو عطا فرماتا رہے۔ لیکن اس کا نقصان ایسا ہے جس نے ہلا کر رکھ دیا ہے۔ وہ پیارا وجود وقف کی روح کو سمجھنے والا اور اس عہد کو حقیقی رنگ میں نبھانے والا تھا جو اس نے کیا تھا۔ مجھے حیرت ہوتی تھی اسے دیکھ کر اور اب تک ہوتی ہے کہ کس طرح اس دنیاوی ماحول میں پلنے والے بچے نے اپنے وقف کو سمجھا اور پھر اسے نبھایا۔اور ایسا نبھایا کہ اس کے معیار کو انتہا تک پہنچا دیا۔ وہ بزرگوں کے واقعات پڑھتا تھا اس لیے نہیں کہ تاریخ سے آگاہی حاصل کرے اور ان کی قربانیوں پر صرف حیرت کا اظہار کرے بلکہ اس لیے کہ اسے اپنی زندگی کا حصہ بنائے۔ خلافت سے وفا اور اخلاص کاایسا ادراک تھا کہ کم دیکھنے میں آتا ہے۔‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ 3 ستمبر 2021ء)
(نیاز احمدنائک)