اسلام میں عورتوں کے حقوق

رکھ پیش نظر وہ وقت بہن جب زندہ گاڑی جاتی تھی

گھر کی دیواریں روتی تھیں جب دنیا میں تو آتی تھی

گویا تو کنکر پتھر تھی احساس نہ تھا جذبات نہ تھے

توہین تو اپنی یاد تو کر ! ترکہ میں بانٹی جاتی تھی

اسلام پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اسلام نے عورت کو قیدی بنانے کی تعلیم دی اور اس کے حقوق کو زائل کیا۔جبکہ اسلام نے ہی دنیا کو یہ شعور دلایا کہ عورت ایک قابل تعظیم ہستی ہے اور وَ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ جيسى بے مثال تعلیم دنیا کواسلام  کے ذریعہ ملی۔ بانئ اسلام آنحضرت ﷺہی پہلے ایسے مرد ہیں جس نے عورتوں کے حقوق کے لئے آواز بلند کی اور زندگی کے ہر پہلو میں عورتوں کے حقوق کو قائم کردیا۔اسلام کی بعثت سے پہلے عورت کو جو خود میراث تھی ورثہ ملنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ عورت بدکاری کا آلہ سمجھی جاتی تھی۔ یہاں تک کہ وہ مشہور قصائد جو سونے کے حروف میں لکھ کر زمانۂ جاہلیت میں خانہ کعبہ میں آویزاں ہوتے تھے ان میں سے بیشتر کا مضمون یہ تھا کہ ہم نے عورت سے یہ سلوک کیا، ہم نے عورت سے وہ سلوک کیا۔ اور سب سے بڑا فخریہ سمجھا جاتا تھا کہ ہم نے عورت کو اپنی ہوا و ہوس کا نشانہ بنایا ہوا ہے۔

اسلام  نے ماں ، بیٹی، بہن اور بیوی کے طور پر عورت کی ایسی عزت اور ایسا احترام قائم کیا کہ آج بھی ترقی یافتہ ممالک اپنے قوانین میں عورت کے حقوق کی وہ تحفظ قائم نہ کر سکی۔

لڑکی کی پیدائش پر عرب شرم محسوس کرتے اور اس کو زندہ درگور کرنے کو قابل فخر سمجھتے تھے۔ اس حالت کو بیان کرتے ہوئے  قرآن کریم یوں گویا ہے کہ يَتَوَارَى مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوءِ مَا بُشِّرَ بِهِ أَيُمْسِكُهُ عَلَى هُوَنٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرَاب ِکہ وہ لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے اس (خبر) کی تکلیف کی وجہ سے جس کی بشارت اُسے دی گئی۔ کیا وہ رسوائی کے باوجود (اللہ کے) اُس (احسان) کو روک رکھے یا اسے مٹی میں گاڑ دے۔

آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ عورت ذلت کا باعث نہیں بلکہ باعث عزت  اور عزت دلانے کا موجب ہے۔حضور اکرم ﷺ نے فرمایا ، فَلَهُ الْجَنَّةُ مَنْ عَالَ ثَلَاثَ بَنَاتٍ فَأَدَّبَهُنَّ یعنی جس نے تین لڑکیوں کی پرورش کی ان کو تعلیم وتربیت دی، ان کی شادی کی اور ان کے ساتھ (بعد میں بھی) حسن سلوک کیا تو اس کے لیے جنت ہے۔آریہ مذہب والے تو نرینہ اولاد کی پیدائش کو حصول نجات قرار دیتے تھے اور اس کے لئے اپنی عورت کو نیوگ جیسی ذلیل حرکت پر مجبور کر دیتے تھے۔لیکن اسلام نے  مرد کی بہتری کا معیاریہ رکھ دیا کہ خَیْرُ کُمْ خَیْرُ کُمْ لِاَھْلِہِ تم میں سے اچھا وہ ہے جو اپنے اہل کے لیے اچھا ہے۔ اسی طرح عورت کو نجات دلانے کا ضامن قرار دیتے ہوئے فرمایا الْجَنَّةُ تَحْتَ اَقْدَامِ الْاُمَّهَاتْ۔کہ جنت ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے۔

اسلام نے ایک عورت کو جو مقام دے کر اس کا حق قائم کیا ہے اس بارے میں ایک حدیث آتی ہے۔حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دنیا ایک دولت ہے اور عورت کا مقام اس میں بیان فرمایا کہ دنیا کی بہترین دولت نیک عورت ہے۔

(صحیح مسلم کتاب الرضاعہ باب خیر متاع الدنیا والمراة الصالحة حدیث1469)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے ایک الہام خُذُوا الرِّفْقَ الرِّفْقَ فَاِنَّ الرِّفْقَ رَأْسُ الْخَیْرَاتِ کے متعلق فرماتے ہیں کہ اس الہام میں تمام جماعت کے لیے تعلیم ہے کہ اپنی بیویوں سے رِفق اور نرمی سے پیش آویں۔ وہ ان کی کنیزیں نہیں ہیں۔ درحقیقت نکاح مرد اور عورت کا باہم معاہدہ ہے۔ پس کوشش کرو کہ اپنے معاہدے میں دغا باز نہ ٹھہرو۔ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ وَعَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ یعنی اپنی بیویوں کے ساتھ نیک سلوک کے ساتھ زندگی بسر کرو ۔ اور حدیث میں ہے کہ خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ بِاَھْلِہٖ یعنی تم میں سے اچھا وہی ہے جو اپنی بیوی سے اچھا ہے ۔ سو روحانی اور جسمانی طور پر اپنی بیویوں سے نیکی کرو۔ ان کے لیے دعا کرتے رہو اور طلاق سے پرہیز کرو کیونکہ بد خدا کے نزدیک وہ شخص ہے جو طلاق دینے میں جلدی کرتا ہے۔ جس کو خدا نے جوڑا ہے اس کو ایک گندے برتن کی طرح جلد مت توڑو۔

(ماخوذ از اربعین نمبر 3، روحانی خزائن جلد 17صفحہ 428 مع حاشیہ)

اور ایک شخص کے سوال پر کہ میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے ؟ آنحضرت ﷺنے تین مرتبہ فرمایا تیری ماں اور چوتھی مرتبہ فرمایا کہ تیرا باپ۔آپؐ نے عورت کو خود اپنے شوہر کا انتخاب کرنے کا حق دلایا اور اسی طرح رشتہ میں تلخی پیدا ہونے پر خلع کا بھی حق دیا۔

دین کے معاملہ میں بھی عورت کو پیچھے نہیں رہنے دیا گیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایااَنِّي لَا أُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِنْكُمْ مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى کہ میں تم میں سے کسی عمل کرنے والے کا عمل ہر گز ضائع نہیں کروں گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت ۔ ایک عورت نے جب مردوں کی نیکیوں میں فضیلت کی شکایت کی تو آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ : کسی عورت کے لئے اچھی بیوی بننا، خاوند کی رضا جوئی اور اس کے موافق چلنا، مردوں کی ان تمام نیکیوں کے برابر ہے۔

دورِ حاضر میں عورت کے مقام پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں۔ آج کل دیگر مذاہب اور خاص طور پر مغربی دنیا اسلام پر عورت کے حقوق کو غصب کرنے کا الزام لگاتی ہے، یہاں تک کہ کچھ نئی نسل کے مسلمان بھی کم علمی کی وجہ سے ان الزامات کو کسی حد تک درست خیال کرنے لگتےہیں۔ آج یہ ترقی یافتہ ممالک جہاں عورت کو بیسویں صدی کی پہلی دہائی تک ووٹ ڈالنے کا حق دینے سے قاصر رہے، وہ 1400 سال قبل جنگِ احدکے موقعہ پر دشمن سے لڑتی حضرت اُمِ عمارہ ، جو سرورِ دو جہاں کی حفاظت میں دشمنوں کے ہر وار کو ناکام بنا دیتی ہیں کہ آپؐ یہ پکار اُٹھتے ہیں کہ من یطیق ما یطیقین یا ام عمارہ! یعنی اے ام عمارہ !جتنی طاقت تجھ میں ہے اور کسی میں کہاں ہوگی،کا مقابلہ کس طرح کر سکتے ہیں۔

جہاں 1900ء تک عورت کے لئےتعلیم، یا کم از کم اعلیٰ تعلیم کے لیے بے شمار رکاوٹیں درپیش تھیں، وہیں 1400 سال قبل جہاں ام المومنین حضرت عائشہ ؓمردوں اور عورتوں کو دینی مسائل کے بارے میں وعظ کرتی تھیں اور آپؓ سے 2000 سے زائد احادیثِ نبویؐ مروی ہیں جو کہ تاریخ میں گراں قدر اہمیت رکھتی ہیں۔ اور جہاں 1930ء تک انگلستان، سویڈن، نیو زی لینڈ اور دیگر بیشتر مغربی ممالک میں عورت کو طلاق کے لیے خاوند کے شدید تشدّد، طویل عرصہ کی ذہنی بیماری اور دیگر انتہائی غیر مناسب ثبوت ہونے لازمی تھے۔ آج یہ نام نہاد ممالک جو کہ عورت کو مرد کے مساوی کام کرنے کے باوجود عورت کو برابر تنخواہ تک نہیں دے سکے وہ اسلام کی اس خوبصورت تعلیم کا مقابلہ کس طرح کرسکتے ہیں جس نے گھر بیٹھی عورت کو گھر کی ملکہ بنادیا اور بن مانگے اس کو وہ حقوق دئیے جن کے حصول کے لئے مغرب میں اور ساری دنیا میں آج تک عورتیں کوشش کر رہی ہیں۔ یقیناً نہیں کرسکتے اور کبھی کر بھی نہیں سکیں گے جب تک آپؐ کی دی ہوئی مکمل تعلیم کی پیروی نہیں کرتے۔

ایک امریکی مصنف جان ڈیون نپورٹ اپنی تصنیف میں لکھتے ہیں۔

’’محمدؐ نے 1300 سال قبل اسلام میں ماؤں، بیویوں اور بیٹیوں کے لئے وہ مقام اور وقار یقینی بنادیا جو ابھی تک مغرب کے قوانین میں عورت کو نہ مل سکا۔‘‘       

(Muhammad & Teaching of Quran by John Davenport)

وہ رحمتِ عالم آتا ہے تیرا حامی ہوجاتا ہے

تو بھی انساں کہلاتی ہے سب حق تیرے دلواتا ہے

بھیج درود اس محسن پر تو دن میں سو سو بار

پاک محمد مصطفیٰ نبیوں کا سردار

حافظ سید گلستان عارف استاد جامعہ احمدیہ قادیان

Leave a Reply

تازہ ترین

متعلقہ پوسٹس

سب کے حقوق برابر ہيں

ایک دن کاشف اپنے اسکول کے میدان میں دوستوں کے ساتھ کرکٹ کھیل رہا تھا۔ وہ سب ہنسی خوشی کھیل میں مصروف تھے کہ اچانک

اسلام میں عورتوں کے حقوق

رکھ پیش نظر وہ وقت بہن جب زندہ گاڑی جاتی تھی گھر کی دیواریں روتی تھیں جب دنیا میں تو آتی تھی گویا تو کنکر