وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ہَوْنًا وَّاِذَا خَاطَبَہُمُ الْجٰہِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا
(سورۃ الفرقان آیت :64)
ترجمہ: اور رحمان کے بندے وہ ہیں جو زمین پر فروتنی کے ساتھ چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو (جواباً) کہتے ہیں” سلام“۔
اس آیت کی تفسیربیان فرماتے ہوئے حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں:
’’ چنانچہ اللہ تعالی ان عِبَادُ الرَّحْمٰنِ کی علامات بیان کرتے ہوئے سب سے پہلی علامت یہ بیان فرماتا ہے کہ یمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ ہَوْنًا وہ زمین پر بڑے سکون اور وقار کے ساتھ چلتے ہیں ۔ اس کے ایک معنے تو یہ ہیں کہ وہ اپنی دنیوی زندگی بڑے اعتدال کے ساتھ بسر کرتے ہیں۔ یعنی نہ تو بے جا غضب اور تیزی سے کام لے کر لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور نہ سستی اور جمود کا شکار ہو کر اپنے مفوضہ فرائض کی ادائیگی سے غافل ہو جاتے ہیں بلکہ جس طرح آسمان کا وجود زمینی قوتوں کے نشوونما کے لئے ضروری ہوتا ہے اسی طرح اُن کا وجود لوگوں کی ترقی اور ان کی فلاح و بہبود کا موجب بنتا ہے اُن کی تباہی اور بربادی کا موجب نہیں بنتا۔ وَاِذَا خَاطَبَہُمُ الْجٰہِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا اور جب جاہل لوگ چاہتے ہیں کہ انہیں اپنی حرکات سے جوش دلائیں اور کوئی جھگڑا اور فساد کھڑا کریں تو وہ طیش میں آکر نا جائز اور اوچھے ہتھیاروں پر نہیں اُتر آتے بلکہ ایسی حالت میں بھی اُن کی سلامتی ہی چاہتے ہیں یعنی ایسے ذرائع استعمال میں لاتے ہیں جن سے اُن کی اصلاح ہو جائے ۔ اور دنیا میں امن اور سلامتی کا دور دورہ ہو۔‘‘
(تفسیر کبیر جلد 6 صفحہ 561ایڈیشن 2004)