خدام الاحمدیہ سے خلفاء کرام کی توقعات

ریحان احمد شیخ مربی سلسلہ دفتر صدر صدر انجمن احمدیہ قادیان

تنظیم مجلس خدام الاحمدیہ کا قیام آج سے تقریبًا 82سال قبل اس مبارک وجود کے ذریعہ ہوا جس کے متعلق اللہ جل شانہٗ نے خود مبارک پیشگوئی میں فرمایا تھاکہ’’ وہ سخت ذہین و فہیم ہوگا۔۔۔اور علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیاجائےگا،جس کا نزول بہت مبارک اور جلال الٰہی کے ظہور کا موجب ہوگا ،ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا،قومیں اس سے برکت پائیں گی…‘‘

(متن پیشگوئی المصلح الموعودؑ)

سیدنا حضرت المصلح الموعود خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عالمگیر غلبۂ اسلام کے لئے جن عظیم الشان تحریکوں کی بنیاد رکھی ان میں سےایک اہم اور دور رس نتائج کی حامل عظیم الشان تحریک’’ مجلس خدام الاحمدیہ‘‘ ہے جس کا قیام سن 1938ء کو عمل میں آیا۔آپ نے اس مجلس کی بنیاد رکھتے وقت فرمایا تھا کہ

’’ میں دیکھ رہا ہوں کہ ہماری طرف سے(دشمن کے)ان حملوں کا کیا جواب دیاجائےگا۔ایک ایک چیز کا اجمالی علم میرے ذہن میں موجود ہے اور اسی کا ایک حصہ خدام الاحمدیہ ہے اور درحقیقت یہ روحانی ٹریننگ اور روحانی تعلیم وتربیت کا زمانہ ہے اور ٹریننگ کا زمانہ خاموشی کا زمانہ ہوتا ہے،لوگ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ کچھ نہیں ہو رہا مگر قوم تربیت پاکر عمل کے میدان میں نکل کھڑی ہوتی ہے تو دنیا انجام دیکھنے لگ جاتی ہے۔‘‘

(بحوالہ تاریخ احمدیت جلد8صفحہ445)

بہر حال اس مختصر مضمون میں خدام الاحمدیہ سے خلفاء کرام کی کیا توقعات ہے اس کو بیان کرنا مقصود ہے لہذا تمہید کو زیادہ طول نہ دیتے ہوئے خدام الاحمدیہ سے خلفاء کرام کی توقعات سے متعلق چند اقتباسات پیش خدمت ہیں۔

سیدنا حضرت المصلح الموعود خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بانیٔ تنظیم نے فرمایا کہ’’میر ی غرض اس مجلس کے قیام سے یہ ہے کہ جو تعلیم ہمارے دلوں میں دفن ہے اسے ہوانہ لگ جائے بلکہ وہ اسی طرح نسلاً بعد نسلٍ دلوں میں دفن ہوتی چلی جائےآج ہمارے دلوں میں دفن ہے تو کل وہ ہماری اولادوں کے دلوں میں دفن ہو اور پرسوں ان کی اولادوں کے دلوں میں یہاں تک کہ یہ تعلیم ہم سے وابستہ ہو جائے ہمارے دلوں کے ساتھ چمٹ جائے اور ایسی صورت اختیار کر ے جو دنیا کے لئے مفید اور بابرکت ہو۔‘‘(بحوالہ الفضل 17؍فروری 1939ء )

اسی طرح ایک اور مقام میں کچھ یوں بیان فرمایا کہ

’’ میں نے متواتر جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ قوموں کی اصلاح نوجوانوں کی اصلاح کے بغیر نہیں ہو سکتی نئی نسلیں جب تک اس دین اور ان اصول کی حامل نہ ہو ں جن کو خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کے نبی اور ماموردنیا میں قائم کرتے ہیں اس وقت تک اس سلسلہ کی ترقی کی طرف کبھی بھی صحیح معنوں میں قدم نہیں اٹھ سکتا۔۔۔میں چاہتا ہوں کہ باہر کی جماعتیں بھی اپنی اپنی جگہ خدام الاحمدیہ نام کی مجالس قائم کریں خدام الاحمدیہ سے مراد یہی ہے کہ احمدیت کے خادم یہ نام انہیںیہ بات بھی ہمیشہ یاد دلاتا رہے گا کہ وہ خادم ہیں مخدوم نہیں۔‘‘

(بحوالہ الفضل 10؍اپریل 1938ء)

حضرت مصلح موعودؓمزید فرماتے ہیں کہ’’اس بات کو مد نظر رکھیں کہ ان کا تعداد پر بھروسہ نہ ہوبلکہ کام کرنا ان کا مقصودہو۔۔۔اپنا عملی نمونہ بہتر سے بہتر دکھانا چاہئے۔۔۔تم سمجھو کہ صرف تم پر ہی اس کام کی ذمہ داری عائد ہے۔۔۔ہپ وہم اپنے دلوں سے نکال دو کہ لوگ تمہارے ساتھ شامل نہیں ہوتے تم اگر نیک کاموں میں سرگرمی سے مشغول ہو جاؤتو میں تمہیں سچ کہتا ہوں کہ لوگوں پر اس کا اثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا،سورج مشرق کی بجائے مغرب سے طلوع کر سکتا ہے،سورج مغرب کی بجائے مشرق میں ڈوب سکتا ہے مگر ممکن ہی نہیں کہ کسی نیک کام کو جاری کیا جائے اور وہ ضائع ہو جائے یہ ممکن ہی نہیں کہ تم نیک کام کرو اور خدا تمہیں قبولیت نہ دے۔۔اگر تم یہ کام کروتو گو دنیا میں تمہارا نام کوئی جانے یا نہ جانے مگر خدا تمہارا نام جانے گا اور جس کا نام خدا جانتا ہو اس سے زیادہ مبارک اور خوش قسمت اور کوئی نہیں ہو سکتا۔‘‘(بحوالہ الفضل 10؍اپریل 1938ء)

آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مجلس خدام الاحمدیہ کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ’’ مجلس خدام الاحمدیہ میں جو بھی شامل ہو۔وہ یہ اقرار کرے کہ میں آئندہ یہی سمجھونگا کہ احمدیت کا ستون میں ہوںاور اگر میں ذرا بھی ہلا اور میرے قدم ڈگمگائے تو میں سمجھوںگا کہ احمدیت پر زد آگئی۔‘‘

(بحوالہ مشعل راہ جلد اوّل صفحہ31-30)

حضرت بانئی تنظیم نے کیا ہی خوب فرمایا کہ’’ ظلم کبھی کسی کو عزت نہیں دے سکتا اس لئے اگر تم اپنے اندر سے ظلم کو نکال دو اور حزب اللہ میں داخل ہو جاؤ تو تمہیں کوئی خفیہ تدبیریں اور منصوبے ۔۔۔نقصان نہیں پہنچا سکتے۔یہ سب جھاگ اور جھاگ ہمیشہ مٹ جاتی ہے اور پانی قائم رہتا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ تم حزب اللہ بن جاؤ۔اسلام اور اللہ تعالیٰ کی محبت،نیکی ،سچائی،ہمت اپنے دلوں میں پیداکرو۔دنیا کی بہتری کی کوشش میں لگ جاؤ،اور بنی نوع کی خدمت کا شوق اپنے دلو ں میں پیداکرو۔اسلام کا کامل نمونہ بن جاؤ ۔پھر خواہ دنیا تمہیں سانپ اور بچھو بلکہ پاخانہ اور پیشاب سے بھی بدتر سمجھے تو کامیاب ہوگے اور خواہ کتنی طاقتور حکومتیں تمہیں مٹانا چاہیں وہ کامیاب نہیں ہو سکیں گی۔‘‘

(بحوالہ مشعل راہ جلد اوّل صفحہ43)

آپ ؓ فرماتے ہیں کہ’’ میں نے جو خدام الاحمدیہ نام کی ایک مجلس قائم کی ہے اس کے ذریعہ اس روح کو میں نے جماعت میں قائم کرنا چاہا ہے اور اس کے ہر رکن کا یہ فرض قرار دیا ہے کہ وہ اپنی قوتوں کو ایسے رنگ میں استعمال کرے کہ اپنے فوائد کو وہ بالکل بھلادے اور دوسروں کو نفع پہنچانا اپنی منتہیٰ قرار دے دے۔۔۔کیونکہ جب کوئی شخص ایک منٹ کے لئے بھی اپنے فوائد کو نظر انداز کرکے دوسرے کو فائدہ پہنچانے کے خیال سے کوئی کام کرتا ہے اس ایک منٹ کے لئے وہ خدا تعالیٰ کا مظہر بن جاتا ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 3جون 1938ء مشعل راہ جلد اوّل صفحہ60)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ خدام الاحمدیہ کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ’’ پس خدام الاحمدیہ کا فرض ہے کہ آوارگیوں کو خواہ وہ دماغی ہوں یا جسمانی روکیں اور دور کریں۔کھیلنا آوارگی میں داخل نہیں ۔۔۔پس ورزش انسان کے کاموں کا حصہ ہے۔ہاں گلیوں میں بیکار پھرنا،بیکار بیٹھے باتیں کرنا اوربحثیں کرنا آوارگی ہے اور ان کا انسداد خدام الاحمدیہ کا فرض ہے ۔اگر تم لوگ دنیا کو واعظ کرتے پھرولیکن احمدی بچے آوارہ پھرتے رہیں تو تمہاری سب کوششیں رائیگاں جائیں گی۔۔۔پس تمہارا(یعنی مجلس خدام الاحمدیہ ۔ناقل)فرض ہے کہ ان باتوں کو روکو،دکانوں پر بیٹھ کر وقت ضائع کرنے والوں کو منع کرو اور کوئی نہ مانے تواس کے ماں باپ،استادوں کو اور محلہ کے افسروں(یعنی صدرحلقہ۔ناقل)کو رپورٹ کرو کہ فلاں شخص آوارہ پھرتا یا فارغ بیٹھ کر وقت ضائع کیا۔۔۔پس آوارگی کو مٹانا بھی خدام الاحمدیہ کے فرائض میں سے ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍فروری 1939ء مطبوعہ الفضل 11؍مارچ 1939ء)

مجلس انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ کو مخاطب کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:’’ پس آج سے میں انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ کا فرض مقرر کرتا ہوں کہ وہ قادیان میں اس امر کی نگرانی رکھیں کہ نمازوں کے اوقات میں کوئی دکان کھلی نہ رہے۔میں اس کے بعد ان لوگوں کو مذہبی مجرم سمجھوں گا جو نماز باجماعت ادا نہیں کریں گے اور انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ کو قومی مجرم سمجھوں گا کہ انہوں نے نگرانی کا فرض ادا نہیں کیا۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ5؍جون 1942ء مطبوعہ الفضل 7؍جون1942ء)

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ

’’ مجالس خدام الاحمدیہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے ہر ممبر اور اپنی ہر مجلس کو اٹھاکر کم سے کم اس معیار تک لے جائیں جو ان کے ذہن میںہے۔اگر جماعت کے نوجوانوں میں 10-20یا30فیصدی ہی کام کرنے والے ہوں تو ظاہر ہے کہ ہم وہ نتیجہ حاصل نہیں کر سکتے جس کی امید ہم100فیصدی کی صورت میں اپنے رب سے رکھتے ہیں۔۔۔چاہے وہ مرکزی عہدیدارہیں کہ ان پر ساری مجالس کی نگرانی کی ذمہداری عائد ہوتی یا علاقائی اور ضلعی عہدیدار ہیںکہ ان پر علاقائی اور ضلعی منصوبوں کو پورا کرنا فرض ہے۔آپ میں سے کوئی اس وقت تک خوش نہیں ہو سکتا(اگر اس خوشی کے معنی حقیقی طور پر خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کے لئے جائیں)جب تک آپ کے ماتحت یا آپ کے علاقہ یا آپ کے ضلع میں ایک مجلس بھی ایسی ہے جو کم سے کم معیار پر نہیں آئی اگر آپ اس بات سے تسلی پکڑ لیں کہ ہم چونکہ نسبتًا اچھا کام کرکے علم انعامی حاصل کرلیتے ہیں اس لئے ہم اچھا کام کرنے والے ہیں تو یہ غلطی ہوگی۔اگر مثلاً آج میں یہ اعلان کردو کہ آئندہ صرف اس قیادت کو علم انعامی دیا جائے گا جس کی ساری مجالس کم سے کم معیار تک پہنچ چکی ہوں تو ایک ضلع بھی علم انعامی کا مستحق قرار نہیں دیا جا سکتا۔پس اگر نسبتی طور پر اچھا کام کرنے کے نتیجہ میں تم کوئی انعام نظام سے حاصل کرتے ہو تو وہ اس لئے تمہارے لئے حقیقی کا باعث نہیں ہونا چاہئے کہ وہ کام اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں پسندیدہ مقام پر نہیں پہنچا۔غرض جب تک ہم تمام مجالس کو بیدار کرکے اور انہیں کام کی اہمیت بتا کر فعال مجالس نہیں بنادیتے اس وقت تک ہمیں تسلی اور اطمینان حاصل نہیں ہو سکتا۔‘‘(بحوالہ خطاب حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ 29؍مئی1966ء مشعل راہ جلد دوئم صفحہ4-5)

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ مزید فرماتے ہیں کہ

’’ میں آج اپنے عزیز بچوں اور بھائیوں کو اس بنیادی حقیقت کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ تم اپنے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف اور خشیت پیدا کرو اور ان بنیادوں پر ہی خدام الاحمدیہ کے سارے کاموں کی عمارت کھڑی کی جاتی ہے۔اگر بنیاد نہ ہو تو پھر آپ ہوائی قلعے تو بنا سکتے ہیں لیکن و ہ مضبوط قلعے نہیں بنا سکتے جن کے متعلق بعض دفعہ خدا تعالیٰ یہ اظہار کرتا ہے کہ میرامحبوب محمد ﷺ ان قلعوں میں پناہ گزین ہوتا ہے۔محمد رسول اللہﷺ صرف اس قلعہ میں پناہ گزین ہو سکتے ہیں صرف وہ قلعہ آپکے دین کی حفاظت کر سکتا ہے صرف وہ قلعہ دشمن کے حملوں سے آپ کےلائے ہوئے اسلام کو بچا سکتا ہے۔۔۔جو محمد رسول اللہﷺ کے نام پر اور اللہ کے خوف اور خشیت کی بنیادوں کے اوپر کھڑا کیا جائے جو قلعہ ہوا میں بنایا جائے اس کے نتیجہ میں خیالی پلاؤ پکائے بھی جا سکتے ہیں اور شاید کھائے بھی جا سکیں۔لیکن خیالی پلاؤ نے نہ آپ کو فائدہ دینا ہے اور نہ دنیا کو فائدہ پہنچانا ہے۔ان بنیادوں کو مضبوط کرنا ہمارے لئے ضروری ہے ۔۔۔ کیونکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ جوشخص چھوٹو ں پر شفقت نہیں کرتا اور رحم کی نگاہ سے انہیں نہیں دیکھتا اور ان کی صحیح رنگ میں تربیت نہیں کرتا وہ میری فوج کا سپاہی نہیںہے۔‘‘

(بحوالہ روزنامہ الفضل ربوہ 20؍اکتوبر1969ء)

خدام الاحمدیہ کا کام کبھی ختم نہیں ہوتا اس تعلق سے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں کہ’’ غرض اللہ تعالیٰ کے فضل سے پیچھے تین سال میں خدام الاحمدیہ نے خاصی ترقی کی ہے لیکن پہاڑوں کی بلند چوٹیوں کی طرح خدام الاحمدیہ کے لئے کوئی ایک چوٹی مقرر نہیں کہ جہاں جاکر وہ یہ سمجھیں کہ بس اب ہم آخری بلندی پر پہنچ گئے۔ہمارا کام ختم ہوگیا۔یہ تو ایسے پہاڑ کی چڑھائی ہے کہ جس کی چوٹی کوئی ہے ہی نہیں۔کیونکہ یہ وہ پہاڑ ہے جس کے اوپر عرض رب کریم ہے اور انسان اور اللہ تعالیٰ کے درمیان جو فاصلہ ہے وہ غیر محدود ہے اور ہمیں یہ کوشش کرنی چاہئے اور اسی میں ہماری زندگی اور حیات ہے کہ ہم کسی جگہ پر تھک کر بیٹھ نہ جائیں۔یا کسی جگہ ٹھہر کر یہ نہ سمجھ لیں کہ ہم نے جو حاصل کرنا تھا کر لیا۔نہیں ہمارے لئے غیر محدود ترقیات اور رفعتیں مقدر کی گئی ہیںاور اگر ہم کوشش کریں اور واقعہ میں اللہ تعالیٰ ہمارے دل میں اخلاص و ایثار اور محبت ذاتی اپنے لئے محسوس کرے تو وہ ہم پر فضل نازل کرتا چلا جائےگااور کرتا چلا جاتا ہے۔جس کے نتیجہ میں انسان خدا تعالیٰ سے اور زیادہ پیار حاصل کرتا ہے اور اپنے نفس سے وہ اور زیادہ دور اور بےگانہ ہو جاتا ہے۔‘‘(مشعل راہ جلد دوم صفحہ214)

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے مجلس خدام الاحمدیہ سویڈن کے سالانہ اجتماع 1983ء کے موقع پر خصوصی پیغام بھجوایا جس میں آپ نے تحریر فرمایا کہ’’آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلائیں لیکن صرف آپ کے الفاظ نہ تو ان کو متاثر کریں گے اور نہ ہی وہ اس طرح سے اپنا طرز عمل بدلیں گےان کو(دین حق)کی طرف بلانے کے لئے یہ بتانا ہوگا کہ آپ کا طرز زندگی ان کے طرز زندگی سے بہتر ہے۔آپ کو انہیں نہ صرف باتوں سے بلکہ اپنے (دینی )طرز عمل سے یہ واضح کرنا ہوگا کہ وہ جو صرف خدائے واحد پر یقین رکھتے ہیں اور پھر اسی کو اپنا وجود سونپ دیتے ہیں حقیقت میں وہی نیکی کی زندگی گزارسکتے ہیں اور صرف نیکی کی زندگی ہی حقیقی زندگی ہے۔میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنے اندر(دینی)اقدار پیدا کرنے کی توفیق دے اور پھر آپ میں سے ہر ایک (دین حق)کی سچائی کا ایک زندہ ثبوت بن جائے۔‘‘

(الفضل 23؍جون1982ء صفحہ)

پھر آپ فرماتے ہیں:پس اے احمدی نوجوانو! اٹھوکہ تم سے آج دنیا کی تقدیر وابستہ ہے تم نے حیات بخش نغمے گانے ہیں۔تم نے خدا کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی محبت کرکے زندہ کرنا ہے۔جاؤاور پھیل جاؤ دنیا میں،جاؤ فتح و نصرت تمہارے قدم چومے گی،کیونکہ خدا کی یہ تقدیر ہے جو بہر حال پوری ہوگی۔دنیا میں کوئی نہیں جو اس تقدیر کو بد ل سکے۔‘‘

(بحوالہ الفضل جلسہ سالانہ نمبر1983ءصفحہ15)

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ خدام الاحمدیہ کا عہد اور اس کے جو تقاضے ہیں اس بارے میں فرماتے ہیں کہ

’’ صرف نظریات میں بسنے والے جذبات نہیں ہونے چاہئیںبلکہ تمام عہدیداران کی یہ کوشش ہونی چاہئے کہ ہر احمدی کے قربانی کے معیار کو بلند کیا جائے اور جب اس کا دل کسی تقاضے سے گھبرائےتو ا س کو کچوکا(یعنی جھٹکا ،نوکدار چیز سے گھونپنا ۔ناقل)دیاکریں۔ان کو جگایا کریں اس سے پوچھا کریں کہ تم یہ جو باتیں کرتے ہو کہ ہم یہ کریں گے وہ کریں گے اور ہر دفعہ عہد دہراتے ہوئے کہتے ہوکہ میں جان۔مال۔وقت اور عزت کو قربان کرنےکے لئے ہر دم تیار رہوں گا تو کیا یہ دم وہ دم نہیں ہے جس کے تم نے وعدے کئے تھے۔کیا یہ عزت وہ عزت نہیںہے۔کیا یہ مال وہ مال نہیں ہے جسے قربان کرنے کے لئے تم نے عہد کیا تھا؟

حقیقت یہ ہے کہ عزتوں کی قربانی میں بھی معیار بہت کمزور ہے کیونکہ بہت باتوں پر لوگ بڑی جلدی سیخ پا(یعنی مشتعل،ناراض۔ناقل)ہوکر شکایتیں بھیجتے رہتے ہیں کہ یوںہماری عزت میں فرق پڑ گیا۔فلاں نے اس طرح سے سلوک کیا۔فلاں نے یوں کیا۔حالانکہ زندگی کی یہ ساری باتیں ہمارے عہد کے اندر داخل ہیں۔یہ باتیں ہوتی رہتی ہیں۔اگر کسی عہدیدار کی غلطی سے کسی کی بظاہر بے عزتی بھی ہو جائے تب بھی جس نے یہ عہد کر رکھا ہے کہ میرا رہا ہی کچھ نہیں سب کچھ اللہ کی راہ میں قربان ہے۔شکایت تو بعد میں کر دے تاکہ زیادتی کرنے والے کی اصلاح ہو جائے لیکن اپنا صدمہ اس کو نہیں ہونا چاہئے۔کیونکہ جس کے دل میں سچا ایمان اور خلوص ہوتا ہے وہ بہر حال اس یقین پر قائم ہوتا ہے کہ جتنا میں کسی کی غلطی سے گرایا گیا ہوں اتنا اللہ کی نظر میں اٹھایا کیا ہوں اور خدا کی نظر میں میرا مرتبہ بڑھ چکا ہے۔یہ ہے وہ حقیقت حال جس کے ساتھ خدام کو زندہ رہنا چاہئے۔‘‘

(بحوالہ مشعل راہ جلد سوم صفحہ221)

قارئین حضرات!! مجلس خدام الاحمدیہ کے بانی حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ مرقدہ نے ابتداء سے ہی اس مجلس پر شفقت فرماتے ہوئے اس کی ہمیشہ راہنمائی فرمائی اور مختلف مواقع پر زریں ہدایات سے نوازا۔جس سے اس مجلس کو اپنے ابتدائی خدوخال سنوارنے میں مددملی۔پھر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ جن کی عمر مقدس کا ایک بڑا حصہ اس پودے کی آبیاری میں صرف ہوا تھا کی راہنمائی میسر آئی ۔آپ ؒ کے بعد سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس پودے کی نشوونما کے لئے بیش قیمت ہدایت عطافرماتے رہے اور مجلس ہر آنے والے دن میں بہتر سے بہتر کارکردگی کی راہ پر آگے پڑھتی رہی۔

اب اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے ہمارے پیارے امام سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی نگرانی و راہنمائی میں مجلس خدام الاحمدیہ اپنے ترقی اور عروج کے ایک نئے دور میں داخل ہو چکی ہے اور ہر طلوع ہونے والی صبح ہمارے لئے بلندیوں اور رفعتوں کی پیامبر بن کر آرہی ہے۔الحمد للہ۔

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں کہ

’’۔۔۔اپنے بھائیوں کی پردہ پوشی کرو،ان کی غلطی کو پکڑ کر اس کا  اعلان نہ کرتے پھرو۔پتہ نہیں تم میں کتنی کمزوریاں ہیں اور عیب ہیں۔جن کا حساب روز آخر دینا ہوگا۔تو اگر اس دنیا میں تم نے اپنے بھائیوں کی عیب پوشی کی ہوگی۔ان کی غلطیوں کو دیکھ کر اس کا چرچا کرنے کی بجائے اس کا ہمدرد بن کر اس کو سمجھانے کی کوشش کی ہوگی تو اللہ تعالیٰ تم سے بھی پردہ پوشی کا سلوک کرےگا۔تو یہ حقوق العباد ہیں جن کو تم کروگے تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ٹھہروگے۔‘‘(مشعل راہ جلد پنجم حصہ اوّل صفحہ61)

قوموں کی اصلاح نوجوانوں کی اصلاح کے بغیر ممکن نہیں کی روشنی میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خدام الاحمدیہ کو ذاتی اصلاح کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ’’ احمدیت کی تعلیم پر عمل پیرا ہوں۔معاشرے کےبرے اثرات سے بچیں اور اللہ تعالیٰ سے ذاتی تعلق پیداکریں۔تعلیمی میدان میں مقام پیداکریں،اچھا سائینسدان ،ڈاکٹر،انجینئر اور ماہرزراعت احمدی نوجوانوں سے ملنا چاہئے۔سخت محنت کی عادت ڈالیں،سستیاں ترک کر دیں،جہاں بھی کام کریں اس روح سے کام کریں تو کوئی مقابلہ نہیں کر سکےگا۔نظام جماعت سے وفاداررہیں،اپنے عہد کے مطابق جان و مال اور وقت کی قربانی کے لئےتیار رہیں۔‘‘

(بحوالہ مشعل راہ جلدپنجم حصہ اول صفحہ161)

احمدی نواجوانوں کو مخاطب کرکے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں کہ:’’ہماری جماعت کو نیکی،تقویٰ ،عبادت گزاری،دیانت ،راستی یعنی سچ اور عدل و انصاف میں ایسی ترقی کرنی چاہئے کہ نہ صرف اپنے بلکہ غیر بھی اس کا اعتراف کریں۔۔۔اس غرض کو پورا کرنے کے لئے میں نے خدام الاحمدیہ،انصار اللہ اور لجنہ اماء اللہ کی تحریکات جاری کی ہیں اور ان سب کا مقصد یا کام یہ ہے کہ نہ صرف اپنی ذات میں نیکی قائم کریں بلکہ دوسروں میں بھی نیکی پیداکرنے کی کوشش کریں۔اور جب تک حتمی طور پر جبر و ظلم تعدی یعنی حدسے بڑھا ہوا ظلم،بد دیانتی ،جھوٹ وغیرہ کو نہ مٹادیا جائے اور جب تک ہر امیر،غریب اور چھوٹا اور بڑا اس ذمہ داری کو محسوس نہ کرے کہ اس کا کام یہی نہیں کہ خود عدل و انصاف قائم کرے بلکہ یہ بھی ہے کہ دوسروں سے بھی کروائے خواہ وہ افسر ہی کیوں نہ ہو۔ہماری جماعت اپنوں اور دوسروں کے سامنے کوئی اچھا نمونہ نہیں قائم کر سکتی اگر آپ یہ باتیں نہیںکر رہے تو۔تو یہ باتیں ہیں جو حضرت مصلح موعودؓ کے ذہن میں تھیں کہ اگر جماعت نے ترقی کرنی ہے اگر اس مقصد کو پوراکرنا ہے جس کے لئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام معبوث ہوئے تھے تو ہمیں اپنےنوجوانوں میں تبدیلی پیداکرنی ہوگی۔نوجوانوں کو اپنے اندر تبدیلی پیداکرنی ہوگی۔اپنے بچوں میں تبدیلی کرنی ہوگی اور بچوں کو اپنے اندر تبدیلی کرنی ہوگی۔اپنے بوڑھوں میں تبدیلی پیداکرنی ہوگی اور عورتوں میں تبدیلی پیداکرنی ہوگی۔تبھی ہم اس دعویٰ میں سچے ہو سکتے ہیں کہ ہم دنیا سے ظلم بھی ختم کریں گے اور جبر بھی ختم کریںگے۔تبھی ہم اللہ تعالیٰ کےحکم کے مطابق رشتے داروں سے حسن سلوک بھی کریں گے جب اس نہج پر سوچیں گے۔ماں باپ کے حقوق بھی ادا کریں گے اور یوں بچوں کے حقوق بھی ادا کریں گے،ماتحت کا حق بھی ادا کریں گے اور افسر کا حق بھی ادا کریںگے۔(بحوالہ مشعل راہ جلدپنجم حصہ دوم صفحہ105-106)

قارئین !اگر دیکھا جائے تویہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر ہزاروں صفحات پر مشتمل کتاب تحریری کی جا سکتی ہے۔اس لئے خاکسار مضمون کو زیادہ طول نہ دیتے ہوئے اسی پر مضمون کو ختم کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے حضور دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ خاکسار( گزشتہ تین سال کے مجلس خدام الاحمدیہ قادیان میں بطور معتمد خدمت بجالا رہا ہے)کو مرکزی عہدیداران نیز علاقی سطح پر خدمت بجا لا رہے جملہ عہدیداران کو خلفاء کرام کے منشاء مبارک کے عین مطابق خدمت بجالانے نیز وہ نوجوان جو مجلس سے دور ہٹتے جا رہے ہیں ان کو مجلس کے ساتھ جوڑنے والے بنائے ۔آمین

تازہ ترین

متعلقہ پوسٹس

امام وقت کی آواز

حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزفرماتے ہيں: لوگ عورتوں کے حقوق ادا نہيں کرتے، وارثت کے حقوق۔ اور ان کا شرعي حصہ نہيں ديتے اب بھي يہ بات سامنے آتي ہے برصغير ميں اور جگہوں پر بھي ہوگي کہ عورتوں کو ان کا شرعي حصہ نہيں ديا جاتا۔ وراثث ميں ان کو جو اُن کا حق بنتاہے نہيں ملتا۔ اور يہ بات نظام کے سامنے تب آتي ہے جب بعض عورتيں وصيت کرتي ہيں تو لکھ ديتي ہيں مجھے وراثت ميں اتني جائيداد تو ملي تھي ليکن مَيں نے اپنے بھائي کو يا بھائيوں کو دے دي اور ا س وقت ميرے پاس کچھ نہيں ہے۔ اب اگر آپ گہرائي ميں جا کر ديکھيں،جب بھي جائزہ ليا گيا تو پتہ يہي لگتا ہے کہ بھائي نے يا بھائيوں نے حصہ نہيں ديا اور اپني عزت کي خاطر يہ بيان دے د يا کہ ہم نے دے دي ہے۔ (خطبات مسرور جلد1 صفحہ نمبر115-116))

کلام الامام المھدی ؑ

حضرت اقدس مسيح موعود عليہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہيں کہ: اىک شخص اپنى منکوحہ سے مہر بخشوانا چاہتا تھا مگر وہ عورت کہتى تھى تو

انفاخ النبی ﷺ

حضرت جابر بن عبداللہؓ بيان کرتے ہيں کہ حضرت سعد بن ربيع کي بيوي اپني دونوں بيٹيوں کے ہمراہ آنحضرتؐ کے پاس آئيں اور عرض کيا کہ يا رسول اللہؐ ! يہ دونوں سعد بن ربيعؓ کي بيٹياں ہيں جو آپؐ کے ساتھ لڑتے ہوئے احد کے دن شہيد ہو گئے تھے۔ اور ان کے چچا نے ان دونوں کا مال لے ليا ہے اور ان کے ليے مال نہيں چھوڑا اور ان دونوں کا نکاح بھي نہيں ہو سکتا جب تک ان کے پاس مال نہ ہو۔ آپؐ نے فرمايا اللہ تعاليٰ اس کے بارے ميں فيصلہ فرمائے گا۔ اس پر ميراث کے احکام پر مشتمل آيت نازل ہوئي۔ پھر رسول اللہؐ نے چچا کو بلوايا اور فرمايا کہ سعد کي بيٹيوں کو سعد کے مال کا تيسرا حصہ دو اور ان دونوں کي والدہ کو آٹھواں حصہ دو اور جو بچ جائے وہ تمہارا ہے                                                                                                                            (سنن الترمذي، کتاب الفرائض، باب ما جاء في ميراث البنات)