ایک دن کی بات ہے، 12 سالہ احمد اپنے کمرے میں بیٹھا ہوا
تھا۔ اس نے اپنے ابو سے ایک دن پہلے سوال کیا تھا:
’’ابو!
کیا قرآن میں سائنس کی باتیں بھی ہیں؟ ‘‘
ابو نے مسکرا کر کہا، ’’ہاں بیٹا، قرآن علم کی کتاب ہے،
تم خود ڈھونڈو گے تو زیادہ مزہ آئے گا۔‘‘
یہ بات احمد کے دل کو لگ گئی۔ اگلے دن جب وہ اسکول گیا
تو سائنس کی کلاس میں استاد نے ’’روشنی (Light) ‘‘کے بارے میں بتایا۔
استاد نے کہا، ’’روشنی وہ چیز ہے جو ہمیں دنیا دکھاتی
ہے۔ سورج، چاند، ستارے سب روشنی سے چمکتے ہیں۔‘‘
احمد
کو فوراً قرآن کی ایک آیت یاد آئی:
اَللہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۔
یعنی اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے ۔
(سورۃ النور: 35)
اس نے سوچا: ’’کیا واقعی قرآن میں یہ سب کچھ پہلے سے
موجود ہے؟ ‘‘
واپس گھر آ کر احمد نے ترجمے کے ساتھ قرآن پڑھنا شروع کیا۔
اس نے سورۃ النحل میں پڑھا کہ، ’’ اللہ نے شہد کی مکھی کو حکم دیا کہ وہ پھولوں سے
رس لے اور اس میں شفا ہے۔‘‘
وہ حیرت زدہ رہ گیا! احمد کو لگا جیسے قرآن اور سائنس
آپس میں جُڑے ہوئے ہیں۔
اس نے دیکھا کہ قرآن میں زمین کی گردش، پانی کے چکر،
پہاڑوں کی مضبوطی، حتیٰ کہ انسانی تخلیق کے مراحل کا بھی ذکر ہے۔
احمد نے اپنی ڈائری میں لکھا: ’’قرآن صرف عبادت کی کتاب
نہیں، یہ علم کی روشنی بھی دیتا ہے۔‘‘
اسی رات اس نے اپنے ابو سے کہا: ’’ابو! قرآن کو سمجھ کر
پڑھنا چاہئے، تب ہی اس کا اصل فائدہ ملتا ہے۔‘‘
ابو خوش ہو گئے اور بولے: ’’بیٹا، تم نے قرآن کا اصل
مقصد پہچان لیا۔ یہی شعور ایک سچے مسلمان کی پہچان ہے۔‘‘
سبق
قرآن
مجید صرف نیکی کا حکم دینے والی کتاب نہیں بلکہ علم و تحقیق کی دعوت دینے والی
کتاب بھی ہے۔ اگر بچے شروع سے ہی غور و فکر کی عادت ڈالیں تو وہ سائنس اور ایمان،
دونوں میں آگے بڑھ سکتے ہیں۔