امام وقت کی آواز – جون ۲۰۲۱

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرماتے ہیں:’’روایات میں ایک واقعہ آتا ہے کہ ایک شخص ھبار بن اسود نے رسول اللہؐ کی صاحبزادی حضرت زینبؓ پر مکہ سے مدینہ ہجرت کرتے وقت نیزے سے قاتلانہ حملہ کیا۔ آپ اس وقت حاملہ تھیں۔ حملہ کی وجہ سے آپ کا حمل بھی ضائع ہو گیا۔ زخمی بھی ہوئیں، چوٹ لگی اور اس چوٹ کی وجہ سے آپ کی وفات بھی ہو گئی۔ اس جرم کی وجہ سے ھبار کے لئے قتل کی سزا کا فیصلہ ہوا۔ فتح مکہ کے موقع پر یہ شخص بھاگ کر کہیں چلا گیا مگر بعد میں جب نبی کریمؐ مدینہ واپس تشریف لائے تو ھبار رسول اللہ ؐکی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ رحم کی بھیک مانگتا ہوں۔ پہلے میں آپ سے ڈر کر فرار ہو گیا تھا لیکن مجھے آپ کا عفو اور رحم واپس لے آیا ہے۔ اے خدا کے نبی! ہم جاہل تھے، مشرک تھے، خدا نے ہمیں آپ کے ذریعہ ہدایت دی اور ہلاکت سے بچایا۔ مَیں اپنی زیادتیوں کا اعتراف کرتا ہوں۔ پس میری جہالت سے صَرف نظر فرماتے ہوئے مجھے معاف فرمائیں۔ چنانچہ آنحضرت ؐنے اپنی صاحبزادی کے اس قاتل کو معاف فرما دیا اور فرمایا کہ جا اے ھبار! میں نے تجھے معاف کیا اور پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا یہ احسان ہے کہ اس نے تمہیں اسلام قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ پس جب آپ نے دیکھا کہ اصلاح ہو گئی ہے تو اپنی بیٹی کے قاتل کو بھی معاف فرما دیا۔‘‘

(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 23ستمبر 2016ء)

تازہ ترین

متعلقہ پوسٹس

امام وقت کی آواز

حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزفرماتے ہيں: لوگ عورتوں کے حقوق ادا نہيں کرتے، وارثت کے حقوق۔ اور ان کا شرعي حصہ نہيں ديتے اب بھي يہ بات سامنے آتي ہے برصغير ميں اور جگہوں پر بھي ہوگي کہ عورتوں کو ان کا شرعي حصہ نہيں ديا جاتا۔ وراثث ميں ان کو جو اُن کا حق بنتاہے نہيں ملتا۔ اور يہ بات نظام کے سامنے تب آتي ہے جب بعض عورتيں وصيت کرتي ہيں تو لکھ ديتي ہيں مجھے وراثت ميں اتني جائيداد تو ملي تھي ليکن مَيں نے اپنے بھائي کو يا بھائيوں کو دے دي اور ا س وقت ميرے پاس کچھ نہيں ہے۔ اب اگر آپ گہرائي ميں جا کر ديکھيں،جب بھي جائزہ ليا گيا تو پتہ يہي لگتا ہے کہ بھائي نے يا بھائيوں نے حصہ نہيں ديا اور اپني عزت کي خاطر يہ بيان دے د يا کہ ہم نے دے دي ہے۔ (خطبات مسرور جلد1 صفحہ نمبر115-116))

کلام الامام المھدی ؑ

حضرت اقدس مسيح موعود عليہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہيں کہ: اىک شخص اپنى منکوحہ سے مہر بخشوانا چاہتا تھا مگر وہ عورت کہتى تھى تو

انفاخ النبی ﷺ

حضرت جابر بن عبداللہؓ بيان کرتے ہيں کہ حضرت سعد بن ربيع کي بيوي اپني دونوں بيٹيوں کے ہمراہ آنحضرتؐ کے پاس آئيں اور عرض کيا کہ يا رسول اللہؐ ! يہ دونوں سعد بن ربيعؓ کي بيٹياں ہيں جو آپؐ کے ساتھ لڑتے ہوئے احد کے دن شہيد ہو گئے تھے۔ اور ان کے چچا نے ان دونوں کا مال لے ليا ہے اور ان کے ليے مال نہيں چھوڑا اور ان دونوں کا نکاح بھي نہيں ہو سکتا جب تک ان کے پاس مال نہ ہو۔ آپؐ نے فرمايا اللہ تعاليٰ اس کے بارے ميں فيصلہ فرمائے گا۔ اس پر ميراث کے احکام پر مشتمل آيت نازل ہوئي۔ پھر رسول اللہؐ نے چچا کو بلوايا اور فرمايا کہ سعد کي بيٹيوں کو سعد کے مال کا تيسرا حصہ دو اور ان دونوں کي والدہ کو آٹھواں حصہ دو اور جو بچ جائے وہ تمہارا ہے                                                                                                                            (سنن الترمذي، کتاب الفرائض، باب ما جاء في ميراث البنات)