ہمارے سیدنا بلالؓ (اداریہ – اکتوبر۲۰۲۰ )

ہمارے پیارے امام عالی مقام حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز آجکل بدری صحابہ کے مناقب و مراتب پر بصیرت افروز خطبات جمعہ ارشاد فرما رہے ہیں۔یہ خطبات بدری صحابہ کے بلند مقام کو ہمارے ذہنوں میں راسخ کرتے ہیں ۔اور قرون اولیٰ میں مسلمانوں کی کسمپرسی کی حالت کے باوجود بدر کے میدان میں خاص خدائی نصرت کی یاد تازہ کرتے ہیں۔حضر ت مسیح موعودؑ کو بھی الہام ہوا تھا کہ بدر کے واقعہ کو مت بھولو۔پیارے آقا نے جب بدری صحابہ کی سیرت وسوانح پر خطبات شروع فرمائے تو بعد میں آپ کو معلوم ہواکہ حضرت مسیح موعودؑ کا بدر واقعہ کو یاد رکھنے کے بار ےمیں الہام بھی موجودہے ۔اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ پیارے آقا کے خطبات جمعہ خداتعالیٰ کی خاص راہنمائی کے تابع ہوتے ہیں۔اور وقت کی عین ضرورت ہوتے ہیں۔حدیث شریف میں آیا ہے کہ بدء الاسلام غریبا وسیعود غریبا فطوبیٰ للغرباء ۔یعنی اسلام حالت غربت و اجنبیت میں شروع ہوا یہ پھر( بعد کمال)کے اسی غربت کی طرف لوٹ جائے گااور غرباء کے لئے خوشخبری ہے ۔ہم دیکھتے ہیں کہ عصر حاضر میں بھی اللہ تعالیٰ نے بدر کامل حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؑ کے ذریعہ اسلام کی حمایت اور نصرت فرمائی ۔آپؑ کے گرد بھی روح بلالی رکھنے والے لوگ جمع ہوگئے ۔جنہوں نے حضرت بلال ؓ کی طرح صبر آزما تکالیف کو برداشت کیا لیکن ایمان کی حلاوت کو ہاتھ سے جانے نہ دیا ۔ایمان کی مضبوط چٹانوں پر قائم امام دوراں کے ان بلالوں نے اپنی جانوں کے نذرانے تک پیش کئے اور رہتی دنیاکے لئے ایک نمونہ چھوڑ گئے ۔اور اس امر کا ثبوت دے گئے کہ اس دور میں ایمان و ایقان کی دولت،نسلی، لسانی اوردیگر طرح کے امتیازات کو مٹاکر حقیقی اسلام اخوت ومودت مامور من اللہ حضرت مرزا غلا م احمد قادیانی ؑ کے ساتھ ہی وابستہ ہے۔کیونکہ جو خداکی طرف سے ہوتے ہیں وہی لوگ انقلاب حقیقی پیدا کرنے کے اہل ہوتے ہیں ۔وہ نہ مشرقی ہوتے ہیں اور نہ مغربی ۔وہ سماج کے پسماندہ لوگوں کی آواز بنتے ہوئے انکے حقوق کا تحفظ کرتے ہیں۔حضرت نبی کریم ﷺ نے ایک حبشی غلام کوعرب کے لسانی اور نسلی معاشرے میں نہ صرف سیدنا بلال کہہ کر پکا را بلکہ عملاًانکو بڑے بڑے کبار صحابہ اور معزز خاندانوں سے تعلق رکھنے والے افراد کا سپہ سالار بنایا ۔آج کے مہذب اورمتمدن کہلانے والے معاشرے کے لئے اس میں بہت بڑا اسوہ موجودہے۔white supremacy اور Black lives matter آج کے دور کے بہت بڑے ایشوز بن گئے ہیں ۔ان کا حل سیدنا بلا ل ہیں اور سیدنا بلال کے سردار حضرت محمد مصطفے ﷺ کے اسوہ حسنہ میں ہے ۔جنہوں نے اپنےآخری حج کے موقع پر جوکہ خطبہ حجۃ الوداع کے نام سے موسوم ہے فرمایاتھاکہ کسی کالے کو گورے پر اور کسی گورے کو کالے پر کسی رنگ کی فضیلت نہیں ہے۔حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت بلال بن رباح ؓ کے اوصاف حمیدہ کا تذکر ہ کرتے ہوئے فرمایا’’یہ تھے ہمارے سیدنا بلالؓ جنہوں نے اپنے آقا ومطاع سے عشق ووفاکے او ر اللہ تعالیٰ کی توحید کو اپنے دل میں بٹھانے اور اسکے عملی اظہار کے وہ عملی نمونے قائم کئےجو ہمارے لئے اسوہ ہیں،ہمارے لئے پاک نمونہ ہے۔اورپھر آنحضرت ﷺ کی بھی اپنے اس غلام سے محبت و شفقت کی داستانیںہیں جن کی نظیر ہمیں دنیا میں کہیں اورنظر نہیں آسکتی ۔اور یہی وہ چیز ہے جو آج بھی محبت اورپیار کی فضاؤں کو پیدا کرسکتی ہےبھائی چارے کو پیدا کرسکتی ہے اور غلامی کی زنجیروں کو توڑ سکتی ہے ۔پس آج بھی ہماری نجات اسی میں ہے کہ توحید کے قیام اور عشق رسول عربیﷺ کے ان نمونوں پر قائم ہوں ۔اللہ تعالیٰ اسکی ہمیں توفیق بھی عطا فرمائے۔آمین۔

نیاز احمدنائک

تازہ ترین

متعلقہ پوسٹس

امام وقت کی آواز

حضرت خليفة المسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزفرماتے ہيں: لوگ عورتوں کے حقوق ادا نہيں کرتے، وارثت کے حقوق۔ اور ان کا شرعي حصہ نہيں ديتے اب بھي يہ بات سامنے آتي ہے برصغير ميں اور جگہوں پر بھي ہوگي کہ عورتوں کو ان کا شرعي حصہ نہيں ديا جاتا۔ وراثث ميں ان کو جو اُن کا حق بنتاہے نہيں ملتا۔ اور يہ بات نظام کے سامنے تب آتي ہے جب بعض عورتيں وصيت کرتي ہيں تو لکھ ديتي ہيں مجھے وراثت ميں اتني جائيداد تو ملي تھي ليکن مَيں نے اپنے بھائي کو يا بھائيوں کو دے دي اور ا س وقت ميرے پاس کچھ نہيں ہے۔ اب اگر آپ گہرائي ميں جا کر ديکھيں،جب بھي جائزہ ليا گيا تو پتہ يہي لگتا ہے کہ بھائي نے يا بھائيوں نے حصہ نہيں ديا اور اپني عزت کي خاطر يہ بيان دے د يا کہ ہم نے دے دي ہے۔ (خطبات مسرور جلد1 صفحہ نمبر115-116))

کلام الامام المھدی ؑ

حضرت اقدس مسيح موعود عليہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہيں کہ: اىک شخص اپنى منکوحہ سے مہر بخشوانا چاہتا تھا مگر وہ عورت کہتى تھى تو

انفاخ النبی ﷺ

حضرت جابر بن عبداللہؓ بيان کرتے ہيں کہ حضرت سعد بن ربيع کي بيوي اپني دونوں بيٹيوں کے ہمراہ آنحضرتؐ کے پاس آئيں اور عرض کيا کہ يا رسول اللہؐ ! يہ دونوں سعد بن ربيعؓ کي بيٹياں ہيں جو آپؐ کے ساتھ لڑتے ہوئے احد کے دن شہيد ہو گئے تھے۔ اور ان کے چچا نے ان دونوں کا مال لے ليا ہے اور ان کے ليے مال نہيں چھوڑا اور ان دونوں کا نکاح بھي نہيں ہو سکتا جب تک ان کے پاس مال نہ ہو۔ آپؐ نے فرمايا اللہ تعاليٰ اس کے بارے ميں فيصلہ فرمائے گا۔ اس پر ميراث کے احکام پر مشتمل آيت نازل ہوئي۔ پھر رسول اللہؐ نے چچا کو بلوايا اور فرمايا کہ سعد کي بيٹيوں کو سعد کے مال کا تيسرا حصہ دو اور ان دونوں کي والدہ کو آٹھواں حصہ دو اور جو بچ جائے وہ تمہارا ہے                                                                                                                            (سنن الترمذي، کتاب الفرائض، باب ما جاء في ميراث البنات)